بلوچستان میں قبائلی ، سرداری نظام نے عام عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناکے رکھ دیا ہے۔

بلوچستان میں قبائلی ، سرداری نظام نے عام عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناکے رکھ دیا ہے

بلوچستان میں قبائلی ، سرداری نظام نے عام عوام کی زندگیوں کو اجیرن بناکے رکھ دیا ہے۔
بلوچ قوم انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کھا رہا ہے ایسے حالات میں تعلیم و ترقی تو کجا زندہ رہنا بھی مشکل ہوگیا ہے ۔
دوسری طرف مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے تعلیم کے ٹھیکہ داروں نے مالی مراعات حاصل کرنے کے لئے ایک مخصوص اور طاقتور طبقہ کو تعلیمی سہولیات دینے کے لیئے بلوچستان کے پوش علاقوں میں نجی تعلیمی ادارے قائم کرکے غریب بچوں کی قابلیت اور تعلیم پر ڈاکہ لگا کر ان کا تعلیمی استحصال بلا روک ٹوک کررہے ہیں۔
جس کے برعکس سرکاری تعلیمی اداروں میں زیر تعلم غریب والدین کے بچے انتہائی مایوس کن نتائج حاصل کرکے پروفیشنل کالجز اور یونیورسٹیوں تک رسائی حاصل کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔
ان سب کا بنیادی وجہ طبقاتی نظام تعلیم ہے۔ جو ایک قوم کو تباہی کی طرف دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرہا ہے۔ سرمایہ دار ، تاجر ، زمیندار ، اعلی سرکاری ملازمین ، میر و معتبر ین اور صاحب حیثیت لوگوں کے بچے انہی اسکولوں اور کالجوں میں بھاری بھرکم فیس ادا کرکے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کے نام پر قیمتی سرٹیفکیٹ حاصل کرکے پروفیشنل کالجوں اور یونیورسٹیوں میں آسانی سے رسائی حاصل کرتے ہیں۔
اس کے برعکس غریب والدین کے بچے جو قوم کے معمار تصور کیے جاتے ہیں نا کام ہوکر مایوس ہوکر جہالت سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لیکن تعلیم کے یہ ٹھیکہ دار تعلیم کا سوداگر بن کر تعلیم کو فروخت کر کے بلند عمارتوں کا مالک بن کر بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار ہوکر سر فخر بلند کرکے اسٹیج پر کھڑے ہوکر دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے تعلیم کو عام کیا ہے میرے اسکول کے بچے فلاں یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا فلاں عہدے پر پہنچ گئے ہیں۔
اصل میں ایک با اثر طبقے کو فائدہ دے کر پورے قوم کو برباد کر رہے ہیں۔ اپنے بچوں کی نام پر اسکولیں بنا کر انفرادی نام اور دولت کما رہے ہیں۔ بلوچستان میں جتنے نجی کاروباری اسکول ہیں ان میں کسی ایک اسکول میں ایک ایسا بچہ نہیں ملے گا جو غریب ہو اور انہی اسکولوں میں مفت تعلیم حاصل کرہا ہو۔
کیا اورناچ ، وڈھ ،سارونہ اور درا کھالہ وغیرہ جیسے پسماندہ اور علاقوں میں یہ اسکولی قائم ہوسکتی ہیں؟ بالکل نہیں کیونکہ یہاں سرمایہ دار طبقہ موجود نہیں یہاں کے لوگ غریب ہیں ان کے پاس پیسہ نہیں۔
بشکریہ ہمارا بلوچستان نیوز

اپنا تبصرہ لکھیں