آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری، تمام اداروں کو ملکی آئین کے فریم ورک میں کام کا پابند بنانا ہوگا،چیئرمین تحریک تحفظ آئین
اسلام آباد۔۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین وتحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نےمقامی چینل کے پروگرام میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے لیے میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں ، مذاکرات اس لیے ہوں کہ آئین کی بالادستی ، پارلیمنٹ کی خودمختاری، تمام اداروں کو ملکی آئین کے فریم ورک میں کام کا پابند بنانا ہوگا، ہم نے عوام کے ووٹ سے پارلیمنٹ کو طاقت کا سرچشمہ بنانا ہوگا، مذاکرات ہونگے تو ہم حمایت کرینگے ، آج وزراء کہہ رہے ہیں کہ ملک سے حلال وحرام کا فرق ختم ہوگیا ہے، ملک اور مختلف کونوں سے آواز آرہی ہے کہ آدھی کرپشن بھی ختم ہوجائے تو ہمیں آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضروررت نہیں ہوگی، اس صورتحال میں ہم سب کو توبہ کرنی ہوگی، مذاکرات 70کروڑ سے ایک ارب تک خرید کے نمائندوں سے کیسے ہوسکتے ہیں اور انہیں اختیار بھی نہ ہو اور دوسری جانب ملکی مسائل پر کوئی سنجیدہ بھی نہ ہو اور 8فروری 2024کے الیکشن کو صحیح ماننے پر تلے ہوئے ہو تو یہ پاکستان کی بربادی کا راستہ ہے۔ میرا نہیں خیال کہ بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کا کہا ہوگا، جو الیکشن جیت چکے ہیں وہ جیل میں ہو اور جو ہار چکے ہیں وہ حکمرانی میں ہو ۔یہ حکومت زر وزور سے آئی ہے کسی بھی دلیل عقل اور منطق کو نہیں مان رہے اگر ان کا یہ رویہ رہا تو میں یہ خوشخبری سُنا تا ہوں کہ پھر سول نافرمانی کا اقدام درست ہی ہوگا اور شاید ہم بھی اس کا حصہ بنے۔ ایک سوال کے جواب میں محمود اچکزئی نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان نے اس حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کہا ہوگا ۔ پاکستانی کی حالت انتہائی نازک ہے ، بڑی مشکل میں ہے ، یہاں اگر مذاکرات ہوں گے تو وہ اس بات پر ہوں گے کہ یہ جو چھینا ہوا مینڈیٹ ہے وہ واپس کیا جائے۔ عدالت نے فیصلہ کیا کہ مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دی جائے لیکن عدالت کے فیصلے کو نہیں مانا جارہا ہے۔ امریکہ کے پارلیمنٹ کے نمائندوں سے خط لکھوانے کی باتیں بچگانہ ہیں ، شام ،عراق، لیبیا اور دیگر کی جو حالت ہوئی وہ ہم سب کے سامنے ہیں ان کی معاشی حالت بہتر تھی ہمیں سب سیکھنا چاہیے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ راجہ ناصر صاحب نے کہا کہ تھا کہ کُرم ایجنسی میں کوئی 20ایکڑ اراضی پر جھگڑاتھا اور ڈی سی کو ٹرانسفر کردو لیکن یہ نہیں ہوا اور پھر وہاں 150لوگ مارے گئے ، نہ وہاں صوبائی حکومت اور نہ قومی اسمبلی یا وفاقی حکومت کا کوئی بھی بندہ کسی سے ہمددی یا تعزیت کے لیے گیا۔ وہاں کے نمائندگان اسمبلی میں پُکارتے رہے تھے کہ لوگ بھوک سے مررہے ہیں ، ادوئیات کی کمی ہے، لوگوں کو گولیاں ماری جارہی ہیں سپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج پر بیٹھ گئے ۔ لیکن ہائوس میں کسی کو نہ بولنے دیا گیا نہ سُننے دیا گیا ۔ 26نومبرکے واقعہ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تھی ۔ لوگ شہید ہوئے ہیں، میری رائے تو یہ تھی کہ اس پر خیبر پشتونخوا میں جرگہ ہونا چاہیے تھا ۔