ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
(ورلڈ ریکارڈ ہولڈر)
rachitrali@gmail.com
عثمان جامعی کہتے ہیں ” کیسے منزل ملی کیسے رستہ کٹا” پھر کہتے ہیں کہ ”آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے”۔ آپ کی شاعری کی خصوصیات میں سماجی حقیقت نگاری، تلخ حقائق و مشاہدات، اور معاشرتی بے حسی پر طنز شامل ہیں۔ ان کا کلام درد دل رکھنے والے انسان کے جذبات سے لبریز اور معاشرتی سچائیوں کی بھرپور انداز میں عکاسی کرتا ہے۔ ان کی شہرہ آفاق نظم “کیسے منزل ملی کیسے رستہ کٹا” میں ان کے مخصوص اندازِ بیان اور فن کا کمال نظر آتا ہے۔ عثمان کہتے ہیں:
کس کی دنیا لُٹی کون جاں سے گیا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
اپنی نظم میں عثمان جامعی نے سادہ اور پُراثر الفاظ میں سماجی اور تاریخی تناظر کو پیش کیا ہے، جس میں قیام پاکستان کے وقت مسلمانوں پر ہونے والی ظلم اور جبر کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ “آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے” جیسے الفاظ معاشرتی بے حسی کو نمایاں کرتے ہیں۔ عثمان کی شاعری میں یہ مصرع بار بار دہرایا گیا ہے اور ہر بار ایک نیا پہلو سامنے لاتا ہے، گویا شاعر قاری کو اس تجربے کی تلخی میں شریک کرنا چاہتا ہے جو اُسے خود تو محسوس نہیں ہوا لیکن کسی اور نے جھیلا اور پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔
شاعر کی زبان سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی ہے، جس میں عام انسان کی مشکلات اور جدوجہد کو بیان کرنے کے لیے مصنوعی پیچیدگیوں سے گریز کیا گیا ہے۔ عثمان جامعی کے یہ اشعار ایک کرب انگیز تجربے کا عکس کے طور پر ہمارے سامنے ہیں جہاں دکھ اور محرومی کی تلخی نمایاں طور پر شاعری میں شامل کی گئی ہیں۔ عثمان کے کلام کا یہ حصہ خصوصاً “کس کی دنیا لٹی کون جاں سے گیا، آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے” قاری کے دل پر ایک گہرا اثر ڈالتا ہے، اور اس سوال کے ذریعے شاعر معاشرتی سرد مہری اور خود غرضی پر گہری ضرب لگاتا ہوا نظر آتاہے۔
آپ کی شاعری میں معاشرتی بے حسی کا بار بار زکر کیا گیا ہے، نظم میں شاعر نے بار بار “آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے” کا جملہ دہراکر انسانی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اس تکرار کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ لوگ جنہوں نے جنگ و جدوجہد یا کسی قسم کی قربانی نہیں دی، وہ بآسانی اپنی جگہ محفوظ رہ کر دوسروں کی قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ اس سے معاشرے میں موجود بے حسی اور خود غرضی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
آپ کی نظم میں تاریخی اور سماجی شعورکو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ عثمان جامعی نے اپنے اشعار میں تاریخی اور سماجی شعور کو اجاگر کیا ہے۔ جیسے کہ “جنگ تھی آپ کی ہم نے جیتی ہے جو” سے وہ بتاتے ہیں کہ لڑائی کس کی تھی اور تکلیف کس نے برداشت کی۔ اس شعر میں شاعر اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات عوام کو وہ جنگیں اور مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں جو ان کے نہیں ہوتی بلکہ انہیں معاشرتی اور حکومتی پالیسیاں برداشت کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
عثمان نے اپنی نظم میں سچائی کی بھرپور انداز میں تصویر کشی کی ہے۔ عثمان جامعی کے کلام میں حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ جیسے کہ “آگ تھی اور دھواں مل رہی تھی سزا” سے شاعر حقیقی تکلیف دہ صورتحال کا بیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے اشعار قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ کس طرح دوسروں کی مصیبتوں سے بے خبر ہو کر خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔
عثمان جامعی نے اپنی نظم میں تکرار کو ایک فنکارانہ انداز میں استعمال کیا ہے۔ “آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے” کا استعمال شاعر کے درد اور احتجاج کو مزید طاقتور بنانے کے لیے کافی ہے۔ یہ تکرار قاری کو مسلسل اس امر پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ کتنا بے حس ہو چکا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ عثمان جامعی کی قیام پاکستان کے حوالے لکھی جانے والی نظم ایک بہترین شاہکار کے طور پر ہمارے سامنے ہے اس نظم میں شاعر معاشرتی ناہمواری، بے حسی، اور سماجی بے ضمیری کو بے نقاب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عثمان کی یہ شاہکار نظم معاشرتی رویوں پر ایک گہری ضرب ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا وہ خود بھی انہی لوگوں میں سے ہے جو دوسروں کے دکھوں سے بے خبر ہیں۔ عثمان جامعی کا کلام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل درد اور مصیبت ان لوگوں کا حصہ ہے جو ظلم اور تکالیف برداشت کرتے ہیں جبکہ دوسرے لوگ اپنی محفوظ جگہوں پر بیٹھ کر صرف تماشائی بنے رہتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے عثمان جامعی کی نظم پیش خدمت ہے۔
٭
کیسے منزل ملی کیسے رستہ کٹا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
کس کی دنیا لُٹی کون جاں سے گیا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
کیسے گھر بار تھے جن کو چھوڑا گیا
وہ ذمیں سے جو ناطہ تھا توڑا گیا
کیسے دامن چھُٹے کیسے گھر گھر بٹا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
وہ کہانی نہیں ہم پہ بیتی ھے جو
جنگ تھی آپکی ہم نے جیتی ھے جو
آپ نے کہہ دیا جو ھوا سو ھوا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
ہم نے دیکھے ہیں خوں سے رنگے کارواں
آپ کو کیا خبر آپ تھے ھی کہاں
آگ تھی اور دھواں مل رھی تھی سزا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
اس فسانے کا ہم ھی تو کردار تھے
ہم ھی مصلوب تھے ہم سرِدار تھے
ہم نے ھی جان کا اپنی سودا کِیا
آپ کو کیا پتہ آپ تو گھر پہ تھے
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ”کافرستان”، اردو سفرنامہ ”ہندوکش سے ہمالیہ تک”، افسانہ ”تلاش” خودنوشت سوانح عمری ”چترال کہانی”، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال)، میرا اقبال، محمد ﷺ، ٹریبیوٹ ٹو حضرت محمدﷺ (انگریزی/کھوار) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ، تحقیق و تنقید اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں ۔ ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔