سیاست کا شہباز،خان عبدالولی خان بابا

سیاست کا شہباز،خان عبدالولی خان بابا

تاریخی یاداشت
1915 دسمبر کے مہینے میں خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے ہاں پیدا ہوئے ۔
1918 میں والدہ وفات ہوئیں ۔
1919 میں فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے دوسری شادی کرلی۔
1922 میں خان عبدالولی خان بابا کو اپنے والد خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان بابا کے بنائے ہوئے اتمانزئی کے آزاد ہائی سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کیلئے داخل کرا دیا گیا خان عبدالولی خان بابا کا شمار اس سکول کے ابتدائی طالب علموں میں ہوتا ہے۔
1923 میں فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کی رہائی کے لیے جلسے جلوسوں میں تقریریں کیں۔
1927 میں خان عبدالولی خان بابا نے عبدالاکبر خان کے مشہور سٹیج ڈرامے ( درے یتیمان ) میں بڑے بھائی کا کردار ادا کیا تھا یہ ڈرامہ اتمانزئی کے آزاد ہائی سکول میں منعقد ہوا تھا۔
1929 میں خدائی خدمت گار تحریک میں حصہ لینا شروع کیا ۔
1930 مئی میں حکومت کے کہنے پر پولیس نے اتمانزئی گاوں پر حملہ کیا خان عبدالولی خان بابا اس حملے میں ایک انگریز سپاہی کے ہاتھ سے قتل ہونے سے بال بال بچ گئے ۔
1931 میں میٹرک کے بعد ڈیرہ ڈون( UP ) پبلک سکول میں ڈاکٹر خان صاحب کی بیوی نے داخل کرا دیا یہ سکول آئرلینڈ کی حکومت چلاتی تھی۔
1933 میں خان عبدالولی خان بابا نے یہاں سے سینئر کیمرج کی ڈگری حاصل کی اور آنکھوں کی بینائی کم ہونے کی وجہ سے مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے ۔
1933 میں ڈیرہ ڈون ( UP ) سے واپس آنے پر گھر کی ساری ذمہ داری اپنے سر لے لیں اس لئے کہ والد فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کو 3 سال جیل کی سزا ہوئی تھی ۔
1935 میں خان عبدالولی خان بابا نے گھر اور باہر کے سب کام بہت اچھے طریقے سے سنبھال رکھے تھے جس پر والد فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا بہت خوش ہوئے اور آپ کو بریلی جیل سے خط لکھا۔
1938 میں مہاتما گاندھی جب سرحد کے دورے پر آئے تھے تو خان عبدالولی خان بابا نے گاندھی کو سارے سرحد کی سیر کرائی کیونکہ خان عبدالولی خان بابا گاڑی چلا رہے تھے۔
1942 میں خان عبدالولی خان بابا نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اور اتمانزئی کے خدائی خدمت گار جرنیل زیارتی کاکا کے ہاتھوں سے تحریک میں رضاکارانہ طور پر بھرتی ہوئے۔
1942 میں سالار اعظم امین جان نے ولی خان کو فدا محمد اور ماسٹر عبدالکریم کیساتھ کوہاٹ کے دورے پر بیجھا جو خان عبدالولی خان بابا کے سکول کے زمانے کا دوست تھا اور دورے کا مقصد کوہاٹ کے لوگوں کو حکومت کے خلاف بیدار کرنا تھا۔
1943 جنوری میں خان عبدالولی خان بابا کو پہلی بار حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں حصہ لینے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور FCR 40 کے تحت تین سال کی قید ہوئی۔
1945 کانگریس کے صوبائی پارلیمانی بورڈ نے فیصلہ کیا کہ خان عبدالولی خان بابا کو سرحدی کی
Imperial legislative Council
کی سیٹ کیلئے کھڑا کیا جائے لیکن رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے انکار کیا بعد میں ٹکٹ کانگریس کی طرف سے خان عبدالولی خان بابا کے بڑے بھائی خان عبدالغنی خان بابا کو دیا گیا۔
1946 کانگریس نے دوبارہ وہی ٹکٹ رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کو دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس بار بھی انکار کیا اور کہا کہ میں تو کم عمر ہوں اور یہ تو بڑے بڑے لیڈروں کیلئے ہے۔
1947 میں خان عبدالولی خان بابا آل انڈین نیشنل کانگریس کے رکن بنے ۔
1947 میں رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا صوبہ سرحد میں کانگریس کے جائینٹ سیکرٹری بنے اور پاکستان کی آزادی تک اسی منصب پر فائز رہے۔
1947 میں خان عبدالولی خان بابا نے اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کی۔
1948 میں 15 جون کو خان عبدالولی خان بابا متحدہ ہندوستان کے تقسیم کی مخالفت اور پختون خواہ کی حمایت کے الزام میں اپنے والد فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا اور دوسرے بہت سارے خدائی خدمت گاروں کیساتھ گرفتار ہوئے تمام کی جائیدادیں ضبط کی گئیں اور غیر معینہ مدت کیلئے جیل میں ڈال دیئے گئے ۔
1949 میں 14 فروری کو خان عبدالولی خان بابا کی پہلی بیوی دو بچوں کو یکبارکی میں پیدائش کے دوران وفات پا گئی ان میں سے ایک بچہ تو اسی وقت وفات پا گیا اور دوسرا بچ گیا جس کو آج ملی رہبر اسفندیار ولی خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے خان عبدالولی خان بابا کو اس دوران ایک ماہ کے پیرول پر رہا کر دیا گیا ۔
1949 مئی میں آپ کو ہری پور جیل سے مچھ جیل بلوچستان منتقل کیا گیا ۔
1950 نومبر میں خان عبدالولی خان بابا اور قاضی عطاء اللہ کو سبی جیل منتقل کیا گیا ۔
1951 مئی میں خان عبدالولی خان بابا کو کوئٹہ جیل منتقل کیا گیا ۔
1952 کوئٹہ میں زیادہ گرمی کی وجہ سے خان عبدالولی خان بابا بیمار ہوئے اور آپ کو ڈیرہ اسماعیل خان جیل منتقل کیا گیا ۔
1952 میں 8 دسمبر کو خان عبدالولی خان بابا کی کمشنر کی معینہ مدت ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں ختم ہوئی کمشنر نے مزید سزا نہیں بڑھائی خان عبدالولی خان بابا نے فیڈرل کورٹ سپریم کورٹ کو رہائی کی درخواست بھیج دی کیونکہ حکومت نے ان کو بغیر کسی مقدمے اور جرم متعین کیئے ہوئے جیل میں بند کیا ہوا تھا جیل میں بہت سارے خدائی خدمت گار وفات وفات پا گئے جن میں فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کے بہت قریبی دوست قاضی عطاء اللہ بھی شامل تھے۔
1953 مارچ میں ایک مرتبہ پھر خان عبدالولی خان بابا کو ہری پور جیل بھیج دیا گیا ۔
1953 میں 14 نومبر کو خان عبدالولی خان بابا 5 سال 5 مہینے اور 5 دن قید کاٹنے کے بعد رہا کر دے گئے ۔
1954 کو خان عبدالولی خان بابا نے ایک خدائی خدمت گار امیر محمد خان ہوتی کی بیٹی نسیم سے شادی کی جو بیگم نسیم ولی خان یا مور بی بی کے نام دیا کی جاتی ہے سے دوسری شادی کر لی ۔
1954 میں پاکستان میں ون یونٹ سسٹم بنایا گیا جس کو ختم کرنے کیلئے فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا نے بہت کوشش کی ان کوششوں میں رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے بھی اہم کردار ادا کیاتھا۔
1956 میں رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے اپنے والد اور دوسرے قوم پرست لیڈروں کی بنائی ہوئی نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ۔
1958 میں خان عبدالولی خان بابا کم مدت کیلئے نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر مقرر ہوئے کیونکہ ارباب سکندر خان اس وقت صوبے میں موجود نہیں تھے۔
1958 میں خان عبدالولی خان بابا نے سرحد کے صوبے کا مکمل دورہ کیا تاکہ ایوب خان کی مارشل لاء حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کی جا سکے تاکہ نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈروں کو جیل سے رہائی دی جائے اور وہ اس مقصد میں کامیاب بھی ہوئے ۔
1964 صدارتی انتخاب میں خان عبدالولی خان بابا ایوب خاں کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن فاطمہ جناح کا ساتھ دیا ۔
1964 میں فاطمہ جناح نے خان عبدالولی خان بابا کو سرحدی کے صوبے میں صدارتی الیکشن کمپئین چلانے کیلئے اس صوبے کا صدر بنا دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر میں نے الیکشن جیت لیا تو خان عبدالولی خان بابا کو اپنی کابینہ میں شامل کروں گی۔
1968جون میں خان عبدالولی خان بابا کو مولانا بھاشانی کی جگہ نیشنل عوامی پارٹی کا مرکزی صدر منتخب کیا گیا کیونکہ 1964 کے صدارتی الیکشن میں مولانا بھاشانی نے ایوب خان کی حمایت کی تھی ۔
1968 میں 13 نومبر کو خان عبدالولی خان بابا کو پشاور میں ایوب خان پر قاتلانہ حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔
1969 مارچ کے مہینے میں خان عبدالولی خان بابا کو دوبارہ رہائی ملی۔
1969 میں 11 مئی کو خان عبدالولی خان بابا نے ایوب خان سے ملاقات کی تاکہ ملک میں جمہوریت کو بحال کیا جا سکے لیکن ایوب خان کی اپنی پارٹیاں نہیں چاہتی تھی کہ ایوب خان دوبارہ کامیاب ہو سکے ۔
1969 میں خان عبدالولی خان بابا کی کوششوں کی وجہ سے ون یونٹ سسٹم مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل یحیی خان نے ختم کیا اور بلوچستان کو ایک نئے صوبے کی حیثیت دی گئی۔
1970 میں خان عبدالولی خان بابا نے نیشنل عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر اپنے چارسدہ کے حلقے سے صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں سیٹیں جیت لیں۔
1970 میں خان عبدالولی خان بابا مغربی پاکستان کے وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان کے سیلاب اور قحط زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔
1971 میں ذوالفقار علی بھٹو خان عبدالولی خان بابا سے ملاقات کیلئے پشاور پہنچ گئے تاکہ عوامی لیگ کے خلاف اس کا اعتماد حاصل کر سکیں لیکن رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کی ایسی باتوں کی جگہ تو اسمبلی ہے لیکن اگر تم سننا چاہتے ہو تو نیا وزیراعظم تو مجیب الرحمن ہے جواب میں بھٹو نے کہا کہ اگر تم نے میرا ساتھ نہ دیا تو میں اس الیکشن سے بائیکاٹ کر لونگا رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے اس کو نازک معاملہ قرار دیا۔
1971 میں خان عبدالولی خان بابا علاج کیلئے لندن چلے گئے ۔
1971 میں خان عبدالولی خان بابا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر یحیی خان کے کہنے پر لندن سے سیدھے ڈھاکہ پہنچ گئے ۔
1971 میں خان عبدالولی خان بابا کی صدارت میں نیشنل عوامی پارٹی نے مشرقی پاکستان میں فوج کی مداخلت کو غلط قرار دیا۔
1971 میں 26 نومبر کو یحیی خان نے رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی۔
1971 میں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی پارٹیوں سے تعاون کی درخواست پر خان عبدالولی خان بابا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو خوش آئند کہا۔
1972 میں خان عبدالولی خان بابا نے نئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو سے ایک معاہدہ کیا جسے
Tripartite Agreement
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی بنیاد پر بھٹو صاحب ملک سے ملک سے مارشل لاء کو ہٹا کر جمہوریت یغی ڈیموکریسی کو نافذ کرنے کی کوشش کرینگے اور ساتھ میں نیشنل عوامی پارٹی پر لگائی گئی پابندی کو بھی ختم کرے تاکہ یہ پارٹی سرحد اور بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام کے ساتھ مخلوط بنا سکے۔
1973 میں خان عبدالولی خان بابا بھٹو حکومت کے خلاف قومی اپوزیشن لیڈر مقرر ہوئے۔
1973 مارچ میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے ایک اجتماع جس کی صدارت خان عبدالولی خان بابا کر رہے تھے یہ اجتماع لیاقت باغ میں ہو رہا تھا پر حملہ ہوا بہت سارے لوگ شہید ہوگئے رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا اس حملے میں بچ گئے تاریخ میں اس واقعے کو لیاقت باغ کے خونریز واقعہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
1972 میں خان عبدالولی خان بابا نے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ملکر 1973 کا آئین بنانے اور اس کو نافذ کرنے میں مدد کی۔
1975 میں 8 فروری کو خان عبدالولی خان بابا کو لاہور سے پشاور حیات محمد خان شیرپاؤ کے جنازے میں شرکت کیلئے آتے ہوئے راستے میں گرفتار کر لیا گیا اور پہلے راولپنڈی اور بعد میں ساہیوال اور آخر میں حیدر آباد جیل منتقل کیا گیا ۔
1975 میں 10 فروری کو حکومت نے رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا کی نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی دفاتر بند کر دیئے گئے اور تمام ریکارڈ کو جلایا گیا۔
1975 جون میں خان عبدالولی خان بابا اور ان کی نیشنل عوامی پارٹی کے خلاف ایک ریفرنس سپریم کورٹ کو بیجھا گیا تاکہ پارٹی اور ان کے کارکنوں پر پابندی لگائی جا سکے اس سلسلے میں خان عبدالولی خان بابا پر بہت کیس بنائے گئے جس میں حیدر آباد کیس بہت مشہور ہوا وزیراعظم بھٹو اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح خان عبدالولی خان بابا اور ان کی پارٹی پر مکمل پابندی لگائی جا سکے۔
1976 میں 10 مئی کو خان عبدالولی خان بابا کو پہلی بار سپریم کورٹ میں حیدر آباد کیس کے سلسلے میں پیش کیا گیا ۔
1977 میں نیشنل عوامی پارٹی اور اس کے کارکنوں پر پابندی کی وجہ سے سردار شیرباز خان مزاری نے رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا سے صلاح و مشورے کے بعد ایک نئی پارٹی نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے نام سے بنائی شیرباز خان مزاری کو اسکا پہلا صدر اور بیگم نسیم ولی خان کو نائب صدر بنا دیا گیا۔
1977 جولائی 5 تاریخ کو جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا رہبر تحریک خان عبدالولی خان بابا نے پہلی بار اس کو صحیح قرار دیا کیونکہ جنرل ضیاء الحق نے وعدہ کیا کہ پچھلی حکومت کے لیڈروں کے ساتھ احتساب کیا جائے گا ۔
1977 میں جنرل ضیاء الحق نے خان عبدالولی خان بابا کے ساتھ حیدر آباد جیل میں ملاقات کی ۔
1977 دسمبر میں جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر خان عبدالولی خان بابا کو جیل سے رہائی دی گئی۔
1977 میں خان عبدالولی خان بابا نے سردار شیرباز خان مزاری کے نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی فرنٹ میں شمولیت اختیار کی خان عبدالولی خان بابا کو پارٹی کی صدارت پیش کی گئی لیکن خان عبدالولی خان بابا نے انکار کیا ۔
1978 میں خان عبدالولی خان بابا نے جنرل ضیاء الحق کے افعانستان پر روس کے حملے کی حمایت کرنے کی مخالفت کی اس کے علاوہ بھی خان عبدالولی خان بابا نے ضیاء الحق کے دوبارہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے اور پر پیچھے ہٹنے کی مخالفت کی ۔
1981 فروری میں حکومت کے خلاف
Democracy ( MRD ) Movent Restoration
کے نام سے تحریک شروع ہوئی اس تحریک میں تمام پارٹیوں نے حصہ لیا خان عبدالولی خان بابا کو اس کا پہلا Convener مقرر کیا گیا ۔
1984 میں خان عبدالولی خان بابا کو نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کا صدر مقرر کیا گیا ۔
1984 میں 19 جولائی کو خان عبدالولی خان بابا اپنی بیگم نسیم ولی خان کے ساتھ فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا سے ملاقات کیلئے کابل چلے گئے ۔
1985 میں 26 دسمبر کو خان عبدالولی خان بابا اپنے والد محترم فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا کے ساتھ کانگریس کی صدارت سالہ تقریبات کے لئے بھارت چلے گئے ۔
1986 جولائی کو خان عبدالولی خان بابا عوامی نیشنل پارٹی کا پہلا صدر منتخب کیا گیا ۔
1987 میں خان عبدالولی خان بابا کی پہلی کتاب ( رختیا رختیا دی ) پشتو زبان میں شائع ہوئی۔
1987 میں خان عبدالولی خان بابا کو دوسری مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ۔
1988 میں خان عبدالولی خان بابا پر فاروق قریشی نے اردو زبان میں ایک کتاب
( ولی خان اور قرارداد پاکستان ) کے نام سے لکھی ۔
1988 میں خان عبدالولی خان بابا کی صدارت میں نیشنل عوامی پارٹی نے الیکشن میں حصہ لیا ۔
1988 میں خان عبدالولی خان بابا نے اپنے حلقے چارسدہ میں قومی اسمبلی کی سیٹ جیت لی لیکن صوبائی اسمبلی کی سیٹ ہار گئے ۔
1988 میں خان عبدالولی خان بابا کی پہلی عوامی نیشنل پارٹی نے سرحد میں پاکستان پیپلزپارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاؤ کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی۔
1988 میں 20 جنوری کو فخر افعان بابائے امن باچا خان بابا اسے دنیا سے کوچ کر گئے ۔
1990 کے انتخابات میں مولانا حسن جان سے شکست کھا گئے۔
1990 میں خان عبدالولی خان بابا عملی سیاست سے مستعفی ہوگئے۔
1991 جنوری میں خان عبدالولی خان بابا کو عوامی نیشنل پارٹی کا رہبر تحریک مقرر کیا گیا ۔
1993 مارچ میں خان عبدالولی خان بابا کی دوسری کتاب ( باچا خان اور خدائی خدمت گار ) کی پہلی جلد پشتو زبان میں شائع ہوئی۔
1994 جولائی میں خان عبدالولی خان بابا کی دوسری کتاب
( باچا خان اور خدائی خدمت گار )
کی دوسری جلد شائع ہوئی ۔
1998 مارچ میں خان عبدالولی خان بابا کی دوسری کتاب
( باچا خان اور خدائی خدمت گار )
کی تیسری جلد شائع ہوئی ۔
1998 مئی میں جہانگیرہ نوشہرہ میں کالاباغ ڈیم بنانے کی مخالفت میں خان عبدالولی خان بابا نے آخری بار اجتماع سے خطاب کیا۔
1999 مئی میں خان عبدالولی خان بابا دوسری کتاب
( باچا خان اور خدائی خدمت گار )
کی چوتھی اور آخری جلد پشتو زبان میں شائع ہوئی ۔
2002 نومبر میں آخری بار خان عبدالولی خان بابا عوامی نیشنل پارٹی کے توسط سے میڈیا کے سامنے ائے۔
2004 نومبر میں خان عبدالولی خان بابا کی پہلی کتاب
( رختیا رختیا دی )
جو پشتو زبان میں شائع ہوئی تھی کا انگریزی ترجمہ
( Facts are Facts )
کے نام سے پہلی بار شائع ہوئی ۔
2005 میں خان عبدالولی خان بابا بیمار ہوگئے۔
2006 میں 26 جنوری کو صبح 7 بجکر 15 پر خان عبدالولی خان بابا اس دنیا سے رحلت فرما گئے۔
2006 میں خان عبدالولی خان بابا کی وصیت کے مطابق ان کی نمازہ جنازہ چارسدہ رجڑ کے مشہور امام صاحب حق صاحب نے پڑھائی۔
2006 میں خان عبدالولی خان بابا کی وصیت کے مطابق چارسدہ ولی باغ میں سپردخاک کر دیا گیا ۔
نوٹ :-
تمام دوستوں سے گذارش ہے کہ کافی مشکل سے یہ معلومات اکھٹا کیا لہذا کاپی پیسٹ سے اجتناب کرے ۔
یو جھان مننہ
تمام دوستوں سے گذارش کی جاتی ہے ک
کے تاریخی پوسٹ کو صرف نہ صرف شیئر کرو کاپی پیسٹ نہیں ۔
سوچ بدلی گی سماج بدلے گا اور انور پاشا لکھتا رہے گا مگر کوئی یقین نہیں کرے گا کیونکہ سچ بہت کڑوا ہوتا ہے

اپنا تبصرہ لکھیں