سوگوارانِ جمہوریت

سوگوارانِ جمہوریت

27نومبر کی شام آٹھ بجے کے قریب ایک وکیل دوست کا میسج ملا۔ انہوں نے ایک تصویر بھیجی تھی اور بتایا کہ اس شخص کا نام شفیق خان ہے۔ یہ 26 نومبر کو جناح ایونیو اسلام آباد میں فائرنگ میں شہید ہو گیا ہے۔ اسکی ڈیڈی باڈی پمز ہاسپٹل میں پڑی ہے۔ شفیق کا بھائی عتیق ڈیڈ باڈی لینے آیا ہے لیکن اسے ڈیڈ باڈی نہیں دی جارہی۔ وکیل صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ شفیق کی کوئی مدد کرسکتے ہیں؟ شفیق کی تصویر دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ یہ وہی شخص ہے جو 26نومبر کو سہ پہر تین بجے کے قریب جناح ایونیو پر چائنہ چوک سے آگے آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے دوران بار بار مجھے پانی کی بوتل پکڑاتا تھا تاکہ میں پانی کے چھینٹوں سے آنکھوں کی جلن کم کر سکوں۔ میں نے ایک ساتھی سے رابطہ کیا جو آسانی سے پمز میں داخل ہوسکتا تھا۔ اس کو شفیق کی تصویر بھیجی اور پوچھا کہ کیا اس شخص کی ڈیڈ باڈی پمز میں موجود ہے۔ اس نوجوان ساتھی نے تھوڑی ہی دیر میں مجھے شفیق سمیت تین افراد کی ڈیڈ باڈیز کی ویڈیو بھجوا دی اور بتایا کہ اس شخص کا پورا نام شفیق خان لُنڈ ہے اور یہ ڈیرہ غازی خان سے تحریک انصاف کے احتجاج میں شرکت کیلئے آیا تھا۔ ساتھی نے بتایا کہ ہاسپٹل میں ڈیڈ باڈی تو موجود ہے لیکن ہاسپٹل کا عملہ ڈیڈ باڈی کی موجودگی سے انکاری ہے کیونکہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے دعویٰ کر دیا ہے کہ 26نومبر کے کریک ڈائون میں تحریک انصاف کا کوئی کارکن بھی جان سے نہیں گیا۔ حکومت کے وزراء ایک طرف تو تحریک انصاف کو ڈی چوک سے دم دباکر بھاگنے کے طعنے دے رہے تھے اور دوسری طرف تحریک انصاف کے شہید کارکنوں کی لاشیں چھپا رہے تھے۔ 27نومبر کو پمز اور پولی کلینک نے باقاعدہ بیانات جاری کئے اور ان اطلاعات کی تردید کی کہ دونوں ہاسپٹلز میں 26نومبر کی فائرنگ سے کسی مرنے والے کی لاش موجود ہے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ ایک طرف پمز کی انتظامیہ سے بیان جاری کروایا گیا کہ انکے پاس کوئی لاش نہیں۔ دوسری طرف پمز کی انتظامیہ نے مردان سے تحریک انصاف کے کارکن صدر علی کا 26 نومبر کو رات ساڑھے آٹھ بجے ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں موت کی وجہ فائرنگ قرار دی گئی۔ 26 نومبر کو پولی کلینک نے بھی ایبٹ آباد سے تحریک انصاف کے کارکن مبین اورنگ زیب کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں موت کی وجہ گن شاٹ لکھی گئی۔ اسی ہاسپٹل نے 26نومبر کو مری کے انیس شہزاد کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ بھی جاری کیا جسکے مطابق وہ گن شاٹ سے ماراگیا۔ 26نومبر کو تحریک انصاف کے ان تینوں کارکنوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کرنیوالے ہاسپٹلز نے 27نومبر کو دعویٰ کیا کہ انکے پاس 26نومبر کی فائرنگ کے زخمی تو آئے لیکن کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔ تحریک انصاف کے کچھ ایسے کارکن بھی تھے جو 26 نومبر کی رات گیارہ بجے کے بعد شروع ہونیوالے کریک ڈائون میں مارے گئے لیکن انکے ساتھی لاشیں اٹھا کر لے گئے۔ شفیق خان لُنڈ کی لاش پمز میں موجود تھی لیکن اسکے بھائی کو کہا گیا کہ ہمارے پاس تو لاش ہی نہیں۔ جب اس نے منت سماجت کی اور یقین دلایا کہ وہ بھائی کی لاش پر کوئی شور نہیں مچائے گا، کسی کیخلاف مقدمے کی درخواست نہیں دیگا تو 28 نومبر کو اسے کہا گیا کہ کل آنا۔ 29 نومبر کو شفیق خان لُنڈ کا جسد خاکی عتیق کے حوالے کردیا گیا اور اگلے دن مرحوم کو ڈیرہ غازی خان میں دفن کیا گیا۔ یہ مظلوم پاکستانی رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کی روشنی میں قتل ہوا۔ تین دن تک اسکی لاش کو چھپائے رکھنے والے طاقتور لوگ اندر سے انتہائی خوفزدہ تھے۔ اسی خوف کے باعث ایک صحافی مطیع اللہ جان کو گرفتار کرکے ان پر جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا۔ انکا اصل جرم بھی یہ تھا کہ وہ 26 نومبر کی فائرنگ میں مرنے والوں کے متعلق تفصیلات اکٹھی کر رہے تھے۔ انہیں منشیات استعمال کرنے اور دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا۔ ان کیخلاف مقدمہ سب صحافیوں کیلئے پیغام تھا کہ 26 نومبر کو قتل ہونیوالوں کی لاشیں تلاش مت کرو۔ مطیع اللہ جان عدالت کے ذریعے رہا ہو چکے لیکن ان کیخلاف جھوٹے مقدمے نے بہت سے چہروں کو بے نقاب کردیا۔ ایک طرف رانا ثنا اللہ تھے جنہوں نے اس جھوٹے مقدمے کی مذمت کی اور دوسری طرف کچھ وزراء اس جھوٹ کا دفاع کرتے رہے۔ اسلام آباد پولیس وزیر داخلہ محسن نقوی کے ماتحت ہے۔ عمران خان کے دور میں محسن نقوی کے ٹی وی چینل پر پابندی لگی تو مطیع اللہ جان نے ہمارے ساتھ ملکر حکومت کیخلاف مظاہرے میں تقریر کی تھی۔ جب محسن نقوی کو طاقت اور اقتدار مل گیا تو انکے منظور نظر آئی جی اسلا م آباد کے حکم پرمطیع اللہ جان کیخلاف ایک ایسا مقدمہ بنایا گیا جو پوری دنیا میں پاکستان کو تماشا بنانے کا باعث بنا۔ محسن نقوی ہم سب کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہے کہ کل کو ہم پر بھی ایسے مقدمے بنیں گے۔ ہم سب کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر اسلام آباد میں ایک صحافی پر جھوٹ کا شاہکار مقدمہ قائم ہوسکتا ہے تو بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں میں صحافیوں کیساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا؟ اگر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے غیر مسلح مظاہرین پر گولیاں برسائی جا سکتی ہیں تو بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کیا کیا مظالم ہوتے ہونگے؟ حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ایک انتشاری ٹولہ ہے جس نے اسلام آباد پر حملہ کیا۔ رینجرز کے تین اہلکاروں کی ہلاکت کا الزام تحریک انصاف پر لگایا گیا ہے ان تین اہلکاروں کی موت بھی افسوسناک ہے تاہم سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن تو گولیوں کا شکار ہوئے لیکن رینجرز والوں کو گولیاں کیوں نہ لگیں؟ یقیناً مظاہرین نے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے، انکے پاس میں نے غلیلیں بھی دیکھیں اور انہوں نے پولیس پر پتھرائو بھی کیا لیکن میں نے کسی کے پاس آتشیں اسلحہ نہیں دیکھا۔ اسلام آباد کے جناح ایونیو پر بہت سے کیمرے نصب ہیں ان کیمروں کو مظاہرین کے ہاتھوں میں بندوقیں کیوں نظر نہیں آئیں؟ جو غلطی تحریک انصاف نے 9مئی 2023ء کو کی تھی وہی غلطی حکومت نے 26 نومبر 2024ء کو کردی۔ 9مئی والوں کا احتساب موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ 26نومبر 2024ء کا حساب آج نہیں تو کل ضرور ہوگا۔ 26نومبر کے کریک ڈائون کا سب سے زیادہ فائدہ ریاست دشمن کالعدم تنظیموں کو ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر ان تنظیموں کے بیانیے کو پذیرائی ملنے لگی ہے۔ حکمران ہمیں اسٹاک مارکیٹ کی تیزی پر خوش ہونے کی تلقین فرما رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ کے اوپر نیچے ہونےسے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے حکومت اتنی مطمئن ہوتی تو پھر اسلام آباد میں لاشوں کو چھپاتی اور نہ ایک صحافی پر جھوٹا مقدمہ بناتی۔ لاشیں چھپانے والی حکومت نے جمہوریت کو ایک زندہ لاش بنا دیا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جمہوریت کے نام پر آمریت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی۔ ہمیں صرف سوگوارانِ جمہوریت نہیں بننا بلکہ اس جمہوریت کو مرنے سے بچانا ہے۔ جمہوریت نہ بچی تو پاکستان کا بچنا مشکل ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں