نیویارک کا ’پاکستانی ہوٹل‘، 220 ملین ڈالر کا معاہدہ ،ٹرمپ انڈین نژاد مشیر کا اعتراض

نیویارک کا ’پاکستانی ہوٹل‘، 220 ملین ڈالر کا معاہدہ ،ٹرمپ انڈین نژاد مشیر کا اعتراض

نیویارک کا ’پاکستانی ہوٹل‘، 220 ملین ڈالر کا معاہدہ اور Donald Trump کے انڈین نژاد مشیر کا اعتراض ۔یہ ہوٹل حکومت پاکستان کی ملکیت ہے جو 220 ملین ڈالر کے عوض ریاست نیویارک کو 3 سال کیلئے کرائے پر دیا گیا تھالیکن Elon Musk کیساتھ Doge کے شریک سربراہ Vivek Ramaswamy نے اس پر اعتراضات اٹھادئے ہیں
یہاں اہم حقائق ہیں جو آپ ضرور جاننا چاہیں گے،امریکہ کے شہر نیویارک کے مرکز مینہیٹن میں 100 سال قبل تعمیر کیا جانے والا روزویلٹ ہوٹل ایک بار پھر سے خبروں میں ہے۔
اس کی وجہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں حکومتی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اعلان کردہ نئے ادارے کے نامزد کردہ انڈین نژاد مشیر کی جانب سے اس معاہدے پر تنقید ہے جس کے تحت حکومت پاکستان تین سال کے دوران ریاست نیویارک سے 220 ملین ڈالر حاصل کرنے کی توقع رکھتی ہے۔
یاد رہے کہ مئی 2023 میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز- انوسٹمنٹ لمیٹڈ (پی آئی اے – آئی ایل) اور نیویارک سٹی گورنمنٹ کے درمیان معاہدہ طے پایا اور حکومتِ پاکستان کا ملکیتی 1047 کمروں پر مشتمل روزویلٹ ہوٹل 220 ملین ڈالر کے عوض تین سال کی مدت کے لیے کرائے پر حاصل کیا گیا۔
تاہم چند ہفتے قبل (14 نومبر) نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حکومتی اخراجات کم کرنے اور کفایت شعاری اپنانے کے لیے ایکس کے مالک ایلون مسک کے ساتھ انڈین نژاد ارب پتی کاروباری شخصیت وویک راماسوامی کو اپنی حکومت کے نئے ’ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈی او جی)‘ کے لیے چنا جنھوں نے ایکس پر روزویلٹ ہوٹل معاہدے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے ’پاگل پن‘ قرار دیا ہے۔
راماسوامی نے لکھا کہ ’ٹیکس دینے والوں کی مدد سے تارکینِ وطن کے لیے چلایا جانے والا یہ ہوٹل حکومتِ پاکستان کی ملکیت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نیویارک کے ٹیکس دینے والے ایک غیر ملکی حکومت کو ہمارے اپنے ہی ملک میں تارکینِ وطن کو ٹھہرانے کے لیے رقم ادا کر رہے ہیں۔‘
جس پر Elon Musk نے ان کی اس پوسٹ کے جواب میں لکھا ’کریزی‘ یعنی پاگل پن۔
بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ نیو یارک میں واقع یہ ہوٹل پاکستان کی ملکیت کیسے بنا اور اسے کرائے پر دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
نیویارک کے روزویلٹ ہوٹل کے قیام کو ایک صدی ہو گئی ہے۔ اس کا افتتاح 23 ستمبر سنہ 1924 میں ہوا تھا۔ امریکی صدر تھیوڈر روزویلٹ کے نام پر بنائے گئے اس ہوٹل کی تعمیر پر اس وقت ایک کروڑ 20 لاکھ ڈالر رقم صرف ہوئی تھی۔ یہ ہوٹل ایک خفیہ زیرِ زمین راستے سے نیویارک کے گرینڈ سینٹرل سٹیشن سے بھی جڑا ہوا تھا۔
1979 میں پی آئی اے نے سعودی عرب کے شہزادے فیصل بن خالد بن عبدالعزیز السعود کے ساتھ مل کر اس ہوٹل کو لیز پر حاصل کر لیا تھا۔ اس لیز کی شرائط میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ 20 برس بعد اگر پی آئی اے چاہے تو اس ہوٹل کی عمارت بھی خرید سکتی ہے۔
پھر 1999 میں پی آئی اے نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل کی عمارت کو تین کروڑ 60 لاکھ ڈالر میں خرید لیا۔ پی آئی اے کو ہوٹل کی عمارت خریدنے سے پہلے ہوٹل کے اس وقت کے مالک پال ملسٹین کے ساتھ ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑی۔
پال ملسٹین کا خیال تھا کہ ہوٹل کی قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل سنہ 2005 میں پی آئی اے نے سعودی پرنس کے ساتھ ایک سودے میں روزویلٹ کے 99 فیصد شئیر خرید لیے اور سعودی شہزادے کے پاس صرف ایک فیصد شیئر ہی رہ گئے۔
سنہ 2007 میں پی آئی اے نے ہوٹل کی مرمت اور از سر نو تزئین و آرائش کا کام شروع کیا جس پر چھ کروڑ 50 لاکھ ڈالر کا خرچہ آیا۔ اس کے بعد پی آئی اے نے اپنا مالی خسارہ کو پورا کرنے کے ہوٹل کو بیچنے کے بارے میں بھی سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا لیکن بعد میں یہ فیصلہ ترک کر دیا گیا۔
پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 2020 میں جب کووڈ کی وبا پھیلی تو حکومت نے ہوٹل کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا ’کیونکہ اسے بند رکھنا اسے چلانے سے زیادہ بہتر تھا۔‘
تاہم 2023 میں نیویارک سٹی گورنمنٹ اور ہوٹل یونین کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کی منظوری پاکستان اکنامک کمیٹی (ای سی سی) نے مئی 2023 میں دی اور تین سال کے لیے ہوٹل کے 1025 کمرے لیز پر دے دیے گئے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ نیویارک حکومت کے ساتھ طے معاہدے میں شامل تھا کہ چونکہ روزویلٹ ہوٹل بہت پرانا ہے لہذا کم از کم جتنی ضرورت ہوئی، اتنا مرمتی کام وہ خود (نیویارک کی سٹی سٹیٹ) کریں گے اور فی کمرہ فی رات کے حساب سے 200 ڈالر کی رقم ادا کی جائے گی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس وقت پاکستان کے وفاقی وزیر برائے ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ سنہ 2020 میں کووڈ کے باعث روزویلٹ ہوٹل بند ہو گیا اور انھیں بتایا گیا کہ کیونکہ یہ ہوٹل تقریباً 100 سال پرانا ہے لہذا اسے چلانے کے لیے حکومت پاکستان کا بڑا خرچہ ہوتا۔
ان کے مطابق ’اس وقت ہوٹل بیچنے کے لیے دباؤ تھا‘ لیکن انھوں نے انکار کیا کیونکہ ’جلدی میں بیچے جانے کی صورت میں بہتر رقم نہ ملتی اور قانونی مسائل بھی تھے۔‘
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ ’قدرت نے ہمارے لیے ایک موقع پیدا کیا، نیویارک کی شہری انتظامیہ کو تارکینِ وطن کے لیے ہوٹل چاہیے تھے، انھوں نے ہم سے رابطہ کیا اور یوں تین سالہ معاہدہ ہوا جس کے مطابق حکومتِ پاکستان کو 220 ملین ڈالر کی رقم بطور لیز طے پائی۔‘
یہ وہ تارکینِ وطن تھے جنھیں شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا اور ان لوگوں کو (شہریت ملنے تک) رہنے سہنے کے لیے جن جگہوں کا انتخاب کیا ان میں روزویلٹ بھی شامل تھا۔ اور یوں تین سال کے لیے پورا ہوٹل بک ہو گیا۔
سابق وزیر کہتے ہیں ’اس ڈیل سے ہوٹل پر کوئی پیسہ نہیں لگ رہا تھا اور جس وقت ہوٹل بند تھا اس پر تقریباً 25 ملین ڈالر کا خرچ آ رہا تھا جن میں ملازمین کی تنخواہیں، لیز کی ادائیگیاں، انٹرسٹ اور ٹیکس وغیرہ شامل تھے۔‘
ان کے مطابق ’اس ڈیل کے نیتجے میں سارے اخراجات ادا کرنے کے بعد بھی چھ سے سات ملین ڈالر پاکستان کو بچ جائیں گے۔‘
وویک راماسوامی کی جانب سے معاہدے پر تنقید کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ’نئی انتظامیہ اس ڈیل کو کینسل نہیں کر سکتی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ معاہدہ 14 مہینے کے لیے بائنڈنگ ہے جو گزر چکے ہیں اور چار مہینے اوپر ہو چکے ہیں۔ اس کی کل مدت تین سال ہے، لیکن اگر دونوں فریقین یعنی ہم ہوٹل خالی کروانا چاہیں یا نیویارک کی انتظامیہ اس سے نکلنا چاہیں تو اس کے لیے معاہدے میں چار مہینے کا پیشگی نوٹس شامل ہے۔‘
یاد رہے کہ نیویارک کے سیاہ فارم مئیر ایرک ایڈیمز کا تعلق نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مخالف ڈیموکریٹ پارٹی سے ہے۔
بی بی سی نے نیویارک کے مئیر اور سٹی انتظامیہ کو اپنے سوالات بھیجے ہیں تاہم تادمِ تحریر ہمیں کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
سابق رپبلکن صدارتی امیدوار وویک راماسوامی کے اس بیان پر کہ ’امریکی عوام کا پیسہ حکومتِ پاکستان کو جا رہا ہے‘ سابق وزیر ہوابازی خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ یہ امریکی حکومت کی پالیسی تھی۔ ’ہم نے تو انھیں گن پوائن پر نہیں کہا کہ یہ ہمارا ہوٹل لے لو اور یہاں تارکینِ وطن کو ٹھہراؤ۔
’نیویارک کی انتظامیہ نے خود ہم سے رابطہ کیا، ہمیں اچھی بزنس ڈیل ملی لہذا ہم نے حامی بھر لی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نیویارک کی حکومت نے تارکینِ وطن کے لیے اس وقت 80 سے زائد ہوٹل لیے اور ہمارا ہوٹل بھی ان میں سے ایک تھا۔‘
نو اکتوبر 2024 کو نیویارک پوسٹ میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق اس وقت شہر کے تقریباً 150 ہوٹل تارکینِ وطن کو پناہ دے رہے ہیں۔
مضمون کے مطابق نیویارک کی شہری انتظامیہ کی جانب سے تارکینِ وطن کو ٹھہرانے کے لیے ہوٹلوں کا ’بطورِ پناہ گاہ‘ استعمال مستقبل قریب میں بھی جاری رہے گا۔
نیویارک پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ بے گھر افراد کے لیے بنایا گیا ادارہ ہوٹلوں کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ کم از کم اگلے سال تک تارکین وطن کو پناہ دینے کے لیے 14,000 کمرے فراہم کیے جائیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں