جس کی حدود میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن یہ سلطنت پہلی جنگ عظیم میں ہار گئی،پھر بڑی طاقتوں نے اس کے 47 ٹکڑے کئے اور ہر ٹکڑے کو ایک نیا ملک بنادیاتاکہ پھر کبھی مسلمان ایک جھنڈے تلے نہ جمع ہوسکیں اور وہ کامیاب رہے ‘مصطفیٰ کمال اتاترک نے 29 اکتوبر سنہ 1923 کو قانون سازوں کے ایک گروپ کے ساتھ عشائیے میں یہ اعلان کیا اور اگلے روز ووٹنگ کے بعد، ترک پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی شکل اختیار کی اور اتاترک ترکی کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔’جمہوریہ زندہ باد! مصطفی کمال پاشا زندہ باد!‘، قانون سازوں نے چیخ چیخ کر یہ نعرے لگائے۔‘جہاں بہت سے لوگوں نے اس پر جشن منایا، وہیں بہت سے دوسرے سلطنت عثمانیہ کے زوال کے سوگ میں تھے۔ یہ ایک بہت نامی گرامی سلطنت تھی۔آج ترکی کے قیام کے 100 سال اور سلطنت عثمانیہ کے حتمی زوال کو بھی تقریباً ایک صدی مکمل ہو گئی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق اس تاریخی اعلان کے 100 سال بعد جس نے مشرق وسطیٰ کو بدل کر رکھ دیا تھا اب اتاترک کی میراث خطرے میں پڑ چکی ہے۔اس سلطنت کو آخری دھچکا نومبر 1922 کو لگا جب ’گرینڈ نیشنل اسمبلی‘ نے سلطان کے دفتر کو ختم کر دیا، جس سے سلطنت کے حکمران عثمانی خاندان کی تقریباً 600 سالہ تاریخ اپنے اختتام پر پہنچی۔ اس سلطنت کی بنیاد سنہ 1299 کو رکھی گئی تھی۔ایک ایسی سپر پاور کا زوال، جس نے تاریخ کے کئی ادوار میں طاقتور ترین حریفوں کا مقابلہ کیا، ترکوں کے لیے ایک المیہ تھا۔عثمانی ریاست تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی، جو اس وقت بلغاریہ، مصر، یونان، ہنگری، اردن، لبنان، اسرائیل، فلسطینی علاقے، مقدونیہ، رومانیہ، شام، سعودی عرب کے کچھ حصے اور شمالی افریقہ کے ساحلی حصوں پر حکومت کر رہی تھی۔بہت سے دوسرے ممالک جیسے البانیہ، قبرص، عراق، سربیا، قطر اور یمن بھی جزوی یا مکمل طور پر عثمانی سلطنت کا حصہ تھے۔بہت سی قومیں سامراجی میراث کا ذکر ہی چھیڑنا پسند نہیں کرتیں مگر ترکی جیسے ممالک اسے بہت سنہری دور کے طور پر ان پرانی یادوں کا تازہ کرتے ہیں۔عثمانیہ خاندان کا آغاز ایک ایسے موقعے کے ساتھ ہوا، جسے عثمان اول، جو سلجوق سلطنت کے رہنما تھے، نے ضائع نہیں کیا۔ اپنی سلطنت اور ہمسایہ بازنطینیوں کی کمزوری کا ادراک حاصل کرنے کے بعد عثمان نے سنہ 1299 میں اناطولیہ میں اپنی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا، یہ علاقہ اب ترکی کے نام سے جانا جاتا ہے۔اس طرح وہ ایک ترک ریاست کے بانی اور پہلے سلطان بن گئے۔ یہ وہ ریاست تھی جو کچھ ہی عرصے میں وسیع ہو کر پانچ ملین کلومیٹر سے زیادہ رقبے تک پھیل گئی۔عثمان کی اولاد ’اوٹمن‘ یا ’اوتھمن‘ کہلاتی تھی، جہاں سے وہ ’عثمانی‘ بھی کہلائے جانے لگے۔ انھوں نے چھ صدیوں تک ایک طاقتور ملک پر حکومت کی۔
سقوط قسطنطنیہ
تاہم، پیرس دیدروت یونیورسٹی میں عثمانی اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ کے پروفیسر اولیوربوکیت کا کہنا ہے کہ سنہ 1299 میں صرف ایک ’ترک ریاست‘ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ سلطنت کا قیام سنہ 1453 میں قسطنطنیہ کے زوال کے ساتھ شروع ہوا۔فتح کی علامت کے طور پر ایک سفید گھوڑے پر سوار ہو کر سلطان محمد دوم قسطنطنیہ میں داخل ہوئے اور بازنطینی سلطنت کے ایک ہزار سال کا خاتمہ کیا۔ اس کے بعد انھوں نے مقامی آبادی کے ایک بڑے حصے کے قتل کا حکم دیا جبکہ بچ جانے والوں کو وہاں سے جلاوطنی پر مجبور کر دیا۔اس کے بعد سلطان دوم نے عثمانی علاقے کے دوسرے حصوں سے لوگوں کو لا کر شہر کو دوبارہ آباد کیا۔ سلطان محمد دوم نے قسطنطنیہ کا نام بدل کر استنبول یعنی ’اسلام کا شہر‘ رکھ دیا، اور اس کی تعمیر نو کا آغاز کیا۔اس طرح یہ شہر نہ صرف سلطنت کا سیاسی اور فوجی دارالحکومت بن گیا بلکہ یورپ، افریقہ اور ایشیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایک اہم عالمی تجارتی مرکز بھی بن گیا۔اس سلطنت کی معاشی ترقی کی بڑی وجہ سلطان محمد دوم کی اپنی ریاست میں تاجروں اور کاریگروں کی تعداد میں اضافے کی حوصلہ افزائی کی پالیسی تھی۔انھوں نے بہت سے تاجروں کو استنبول جانے اور وہاں کاروبار شروع کرنے کی ترغیب دی۔ بعد کے حکمرانوں نے اس پالیسی کو جاری رکھا۔
کامیابی کا نسخہ
پروفیسر اولیور بوکیت کے مطابق اس طاقت کی کامیابی کا سہرا جہاں طاقت کے مرکز فرد واحد کو جاتا ہے جس نے کسی قسم کی دشمنی نہیں مول لی اور ملک کو آگے کی طرف لے کر گئے وہیں اس ریاست کی کامیابی کے پیچھے ایک وجہ اس کا فوجی ریاست ہونا بھی ہے۔انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’یہ ایک ایسی ریاست تھی جس کے خزانے کا ایک بڑا حصہ مزید علاقوں کو فتح کرنے پر خرچ ہوتا تھا۔ اس کا مقصد مزید دولت حاصل کرنا اور زیادہ ٹیکسوں کا حصول تھا۔ان کے مطابق سلطنت کا ایک اور محرک اور اہم عنصر اس کی فوجی طاقت تھی۔عثمانی فوج کے حملے بہت ’تیز رفتار‘ ہوتے تھے اور ان کے پاس خصوصی دستے تھے ، جیسا کہ جنیسریز کی مشہور ایلیٹ کور، جو سلطان کی حفاظت پر مامور رہتی تھی۔سلطنت کی انتہائی مرکزی بیوروکریسی کے نظام نے اسے اپنی دولت کی تقسیم کو منظم بنانے میں مدد دی، یہ حقیقت کہ یہ اسلام سے متاثراور متحد تھی اور یہ کہ پورا معاشرہ ایک حکمران کی اطاعت کرتا تھا۔’یہ ایک کثیر الجہتی معاشرہ تھا اور بظاہر وہاں کوئی زبردستی مذہب کی تبدیلی کا تصور موجود نہیں تھا۔ مگر حقیقت میں وہاں لوگ اسلام میں داخل کیے جاتے تھے۔ ان کے مطابق بعض علاقوں میں باقاعدہ ’اسلامائزیشن‘ کی پالیسی تک رائج تھی۔عثمانیوں کو ان کی عملیت پسندی کے لیے بھی جانا جاتا تھا: انھوں نے دوسری ثقافتوں سے بہترین نظریات لیے اور انھیں اپنا بنا لیا۔
سلطان عظیم
سلطنت کے سب سے مشہور سلطانوں میں سے ایک سلیمان عظیم تھے، جس نے سنہ 1520 اور سنہ 1566 کے درمیان حکومت کی اور اپنی ریاست کو بلقان اور ہنگری تک وسعت دی اور اسے رومی شہر ویانا تک پھیلا دیا۔اگرچہ مغرب میں انھیں ’دی میگنیفیسنٹ‘ یعنی عظیم اور مشرق میں ’قانون کا منبع‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لیکن سلیمان کے دوسرے القابات تھے جو اتنے ہی مبالغہ آمیزی پر مبنی تھے جتنے وہ حیران کن تھے۔ان القابات میں ’زمین پر اللہ کا نائب‘، ’اس دنیا کے خداؤں کا خدا‘، ’انسانوں کی گردنوں کا مالک‘ اور ’دنیا بھر کے تمام لوگوں کی پناہ گاہ‘ شامل ہیں، جو ان کو دی جانے والی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ان کا سب سے زیادہ متنازع لقب ’مشرق و مغرب کا شہنشاہ‘ تھا، جسے مورخین روم کی اتھارٹی کے لیے براہ راست چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں، جسے اس وقت کی عثمانی اتھارٹی نے کہیں پیچھے چھوڑ دیا تھا۔اگرچہ بعد میں سلطنت اپنی زیادہ سے زیادہ علاقائی حد تک پہنچ گئی مگر مغرب میں سلیمان عظیم کے دور کو عثمانیوں کے لیے سنہری دور سمجھا جاتا ہے، جس عرصے میں بڑی تعداد میں کامیاب فوجی مہمات چلائی گئیں۔
عالمگیریت کی خواہاں سلطنت
’مشرق اور مغرب کا شہنشاہ‘ کا نام یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سلطنت عثمانیہ نے اپنے آپ کو صرف ایک ہی طاقت کے طور پر دیکھا اور سمجھا، جس کا کوئی دوسرا ہم پلہ یا مماثل نہیں تھا۔مورخ اولیور بوکیت کے مطابق ’عثمانی سلطانوں کی نظر میں، عثمانی سلطان کے علاوہ کوئی دوسرا شہنشاہ نہیں تھا۔‘ان کے مطابق عالمگیر سلطنت کا تصور بازنطینی ورثے اور اسلام سے آیا ہے۔ان کے مطابق ’وہ ان تمام علاقوں کو فتح کرنا چاہتے تھے جہاں مرد اور عورتیں رہتے تھے۔ دارالاسلام یعنی اسلامی سلطنت کی حدود سے باہر واقع تمام ممالک کو فتح کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔‘یہ ایک وجہ ہے جو سلطنت عثمانیہ کے طویل عرصہ قائم رہنے کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہے: اس کی بحریہ کی ان علاقوں کی فتوحات میں کوئی حد نہیں تھی، جو سلسلہ صدیوں تک آگے بڑھتا رہا۔پروفیسر اولیور کا کہنا ہے کہ ’سلطنت اس وقت کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے جب فتوحات مشکل ہو جاتی ہیں یا رک جاتی ہیں۔‘
زوال کا آغاز
پہلا واقعہ جس نے سپر پاور کو کمزور کیا وہ سنہ 1571 میں لیپانٹو کی جنگ میں اس کی شکست تھی، جس میں اس کا سامنا ’ہولی لیگ‘ سے ہوا، جو کیتھولک ریاستوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد اور ہسپانوی بادشاہت کی قیادت میں متحد تھا۔ اس اتحاد میں موجودہ اٹلی کے کچھ علاقے بھی شامل تھے۔یہ ان خونریز لڑائیوں میں سے ایک تھی جو قدیم زمانے سے انسانیت نے دیکھی تھیں اور اس نے بحیرہ روم میں عثمانی فوج کی توسیعی مہم کا خاتمہ کر دیا تھا۔وہاں سلطنت کے اچھے دن اختتام کو پہنچے اور اس کے بعد کی صدیوں پر مشتمل ایک طویل زوال کا آغاز ہوا۔20 ویں صدی کے آغاز میں استنبول کے سیاسی اور معاشی عدم استحکام میں مختلف غلط فہمیوں کا اضافہ ہوا، جس نے ایک ایسی سلطنت کو ختم کر دیا جس کا تاثر پہلے ہی تار تار ہو چکا تھا۔ان میں سے اول چیز پہلی بلقان کی جنگ (1912-1913) تھی، جس میں سلطنت عثمانیہ نے بلقان لیگ (بلغاریہ، یونان، مونٹی نیگرو اور سربیا) کا سامنا کیا، جس نے روس کی حمایت سے عثمانیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کی۔عسکری لحاظ سے کمتر، سلطنت عثمانیہ جنگ ہار گئی اور یورپ میں اس کے تمام علاقے بھی اس سے چھین لیے گئے۔ اب یہ سلطنت قسطنطنیہ اور اس کے اطراف کے علاقوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی۔مورخین اس شکست کو عثمانیوں کے لیے ایک ’ذلت آمیز‘ واقعے اور تاریخ کے ایک اور اہم موڑ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
آخری دھچکا
دوسرے تجارتی راستوں کی ترقی، امریکہ اور ایشیا کے ساتھ بڑھتی ہوئی تجارتی دشمنی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے باقی عثمانی علاقے خراب معاشی صورتحال کا سامنا کر رہے تھے۔انھوں نے برطانیہ اور فرانس جیسی یورپی طاقتوں کے توسیع پسندانہ عزائم کا بھی سامنا کیا۔اس کے علاوہ مختلف مذہبی اور نسلی گروہوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ آرمینیائی، کرد اور یونانی، دوسرے لوگوں کے علاوہ، ترکوں کے ہاتھوں بڑھتے ہوئے مظالم سے تنگ آ چکے تھے۔ان تمام مسائل کے ہوتے ہوئے استنبول نے فرانس، برطانوی سلطنت، امریکہ اور روس کی قیادت میں ایک طاقتور اتحاد کے خلاف ایک نئی جنگ کا آغاز کیا۔پہلی عالمی جنگ (1914-1918) کے دوران مشرق وسطیٰ میں اتحادیوں کی فتح سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے محرکات میں سے ایک تھی، جس کے دن پہلے ہی گنے جا چکے تھے۔اس واقعہ کے بعد شام میں ’فرانسیسی مینڈیٹ‘ اور عراق اور فلسطین میں ’برطانوی مینڈیٹ‘ بنائے گئے، جیسا کہ منصوبہ بندی کی گئی تھی، یہ سب لیگ آف نیشنز (اقوام متحدہ سے پہلے والی تنظیم) کی نگرانی میں ہوا۔عثمانیوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ سنہ 1917 میں جنگ کے وسط میں، فرانس اور برطانیہ پہلے ہی خفیہ طور پر سائیکس پیکوٹ معاہدے کے ساتھ اپنے علاقوں کو تقسیم کرنے پر رضامند ہو چکے تھے۔اسی سال اعلان بالفور پر بھی دستخط کیے گئے، ایک دستاویز جس میں برطانوی حکومت نے یہودی آبادی سے فلسطین کے علاقے میں ایک ’گھر‘ دینے کا وعدہ کیا تھا، جو کہ سلطنت کا حصہ بھی تھے۔یہ معاہدہ برطانیہ کے اس وقت کے وزیرخارجہ آرتھر بالفور کے نام سے ہی جانا جاتا ہے۔
ترکی کی نوزائیدہ ریاست
سرکاری طور پر سلطنت کا وجود یکم نومبر 1922 کو ختم ہو گیا، جب سلطان کا عہدہ ختم کر دیا گیا۔ ایک سال بعد جمہوریہ ترکی کی بنیاد رکھی گئی۔جمہوری انقلاب کی قیادت کرنے کے بعد مصطفی کمال اتاترک، جسے ’جدید ترکی کا باپ‘ سمجھا جاتا ہے، ترکی کے پہلے صدر بنے۔سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان محمد ششم کو انقلابیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کا خدشہ تھا، جس وجہ سے برطانوی محافظوں کو انھیں استنبول سے نکالنا پڑا۔وہ جلا وطنی اختیار کر کے وہ اٹلی میں بینیٹو مسولینی کے سمندر کنارے ریزورٹ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سلطنت عثمانیہ جس کے وہ حکمران تھے کی تقسیم پر اتفاق ہوا تھا۔سلطان ششم وہیں چار سال رہنے کے بعد فوت ہو گئے۔ وہ اس وقت اتنے غریب ہو چکے تھے کہ اطالوی حکام نے ان کا تابوت اس وقت تک ضبط کر لیا جب تک کہ مقامی تاجروں کو قرض ادا نہ کر دیا جائے۔نوزائیدہ ترکی نے اپنی سامراجی خواہشات کو ترک کر دیا اور کمالیت کا نظریہ اختیار کر لیا یعنی وہ کوڈ جسے نئے صدر کمال اتا ترک نے نافذ کیا۔ اس نظریے میں پاپولزم، قوم پرستی، سیکولرازم، شماریات اور اصلاح پسندی کے تصورات پیش کیے گئے۔بہت سے مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ جدید ترکی کا سیکولرازم سلطنت عثمانیہ کی ’عظیم‘ میراث ہے۔
’نیا عثمانی دور‘
دوسری طرف ترکی نے خلافت عثمانیہ کو مختصر طور پر ایک ادارے کے طور پر جاری رکھا۔ یہ بہت ہی کم اختیارات کا حامل ادارہ تھا۔ بعد میں اس ادارے کو تین مارچ 1924 کو ختم کر دیا گیا۔پروفیسر اولیور کے مطابق انقرہ کی حکومت اور ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوغان بھی سلطنت عثمانیہ کے زوال کا سبب مغربی ممالک کو ہی سمجھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ترکی میں کچھ لوگوں نے نام نہاد ’نوعثمانیت‘ کی بحالی کو ہوا دی ہے۔یہ ایک اسلام پسند اور سامراجی سیاسی نظریہ ہے جو اپنے وسیع تر معنوں میں ترکی کے عثمانی ماضی کا احترام کرنے اور ان علاقوں میں ترکی کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی وکالت کرتا ہے، جو عثمانی حکمرانی کے زیرانتظام تھے۔کئی دہائیوں سے جدید ترکی کے رہنماؤں نے مزید مغربیت اور سیکولرازم کا رستہ اختیار کیا اور اپنے سامراجی ماضی اور اسلامی تاریخ سے دوری اختیار کی۔لیکن اپنے اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر اردوغان نے اپنے ملک کے عثمانی ماضی اور اس کے اسلامی ورثے کے لیے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔اس کا ثبوت سنہ 2020 میں آیا صوفیہ کی مسجد میں متنازع تبدیلی تھی، جسے اتاترک نے استنبول کے سب سے مشہور عجائب گھروں میں سے ایک میں تبدیل کر دیا تھا۔اسی طرح اردوغان نے بارہا ’سلیم اول‘ کی تعریف کی۔ سلیم اول ایک ایسے سلطان رہ چکے ہیں جنھوں نے سلطنت عثمانیہ کی سب سے بڑی توسیع کو یقینی بنایا۔سنہ 2017 میں آئینی ریفرنڈم جیتنے کے بعد وہ سلطانی عثمان کے مقبرے پر عوام کے سامنے آئے۔ اس آئینی ریفرنڈم کے ذریعے ترکی کے عوام نے صدر اردوغان کے اختیارات میں بہت زیادہ اضافے کی منظوری دی۔حال ہی میں صدر اردوغان نے استنبول کی مشہور آبنائے باسفورس پر بنائے گئے پلوں میں سے ایک کا نام اپنے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔پروفیسر اولیور بوکیت کے مطابق سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہو گیا، لیکن ایک ’نو-عثمانیت‘ پروان چڑھی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ 20ویں صدی کے آخر میں عثمانی سلطنت کے مقابلے آج بہت زیادہ حوالے دیے جاتے ہیں۔‘