ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی نے حالیہ اجلاس میں انٹرسیکس (خنثی) افراد کی جنس کے تعین اور “ٹرانس جینڈر” کی اصطلاح کے غلط استعمال پر جو خیالات پیش کیے ہیں وہ ہمارے معاشرتی اور مذہبی تناظر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ معاملہ نہ صرف اسلامی قوانین، شرعی قوانین اور اخلاقی اصولوں کا متقاضی ہے بلکہ طبی، سماجی، اور نفسیاتی پہلوؤں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
خنثی (intersex) افراد کا ذکر اسلامی فقہ میں موجود ہے۔ امام ابو حنیفہ اور دیگر فقہا نے ان افراد کے لیے مخصوص احکامات اور ان کے حقوق کے تعین کے لیے رہنما اصول وضع کیے ہیں۔ خنثی کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں: خنثی واضح اور خنثی مشکل۔ پہلی صورت میں ان کی جنس واضح ہوتی ہے، جبکہ دوسری صورت میں جنس کی تعین میں مشکل پیش آتی ہے۔ اسلامی تعلیمات نے ہمیشہ ان افراد کے ساتھ ہمدردی اور انصاف کی تلقین کی ہے جو کہ ہماری سماجی اور دینی روایات کا خاصہ ہے۔
چیرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا مؤقف کہ “ٹرانس جینڈر” کی اصطلاح غلط ہے اور اس کا استعمال کسی بھی صورت مناسب نہیں ایک اہم نکتہ ہے۔ ان کا کہنا کہ پیدائشی جنس کو تبدیل کرنا اسلامی شریعت کے منافی ہے چیرمین کا یہ موقف اسلامی نظریاتی کونسل کی واضح سفارشات کی عکاسی کرتا ہے۔ جنس کے تعین میں طبی ماہرین کی شمولیت اور جراحی طریقوں کی اجازت اسلامی اصولوں کے مطابق ہے لیکن اس عمل کا دائرہ خنثی مشکل تک محدود ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر نعیمی کے مطابق “ٹرانس جینڈر” کی اصطلاح سماجی طور پر غلط استعمال ہو رہی ہے۔ تاہم یہ اصطلاح طبی اور نفسیاتی ماہرین کے لیے ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے جو ان افراد کے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اصطلاحات کا بدلنا یا ان پر پابندی لگانا مسئلے کا مستقل حل نہیں بلکہ زیادہ جامع مکالمے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر نعیمی کا کہنا کہ جنس کا تعین پیدائشی ہوتا ہے اور اس کے خلاف عمل شرعی طور پر ناجائز ہے اسلامی اصولوں کا مظہر ہے۔ تاہم جدید طبی تحقیق یہ ظاہر کرتی ہے کہ کچھ معاملات میں پیدائشی جنس واضح نہیں ہوتی اور جراحی یا طبی مداخلت ضروری ہو سکتی ہے۔
جینڈر ڈسفوریا کو “ذہنی مرض” کہنا ایک سخت موقف ہے۔ طبی ماہرین اسے ایک پیچیدہ نفسیاتی مسئلہ قرار دیتے ہیں جو علاج اور مشاورت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس موضوع پر مزید تحقیق اور مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ سماجی مسائل کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
اسلامی نظریاتی کونسل، طبی ماہرین، اور سماجی کارکنان کو ایک جامع مکالمے کی بنیاد رکھنی چاہیے تاکہ اس مسئلے کے تمام پہلوؤں کو سمجھا جا سکے۔
معاشرتی سطح پر آگاہی مہمات چلائی جائیں تاکہ خنثی اور جینڈر ڈسفوریا کے شکار افراد کے حقوق اور مسائل کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔
اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے جدید طبی تحقیق کو شامل کرنا ضروری ہے۔ اس سے نہ صرف فتاویٰ کی ساکھ میں اضافہ ہوگا بلکہ اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ طبی طریقے بھی وضع کیے جا سکیں گے۔
ایسے افراد کے لیے تعلیمی اور روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ معاشرتی دھارے میں شامل ہو سکیں اور خود کو بوجھ سمجھنے کے بجائے کارآمد شہری بن سکیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کی قیادت میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات ایک مثبت قدم ہیں، مگر ان میں مزید تحقیق اور وسیع مشاورت کی گنجائش موجود ہے۔ خنثی اور جینڈر ڈسفوریا جیسے پیچیدہ مسائل کا حل صرف شرعی اصولوں کی روشنی میں ہی نہیں بلکہ سماجی، طبی، اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھ کر نکالا جا سکتا ہے۔ ایک متوازن اور جامع حکمت عملی ہی ان مسائل کے دیرپا حل کی ضمانت دے سکتی ہے۔