ڈاکثر رحمت عزیز خان چترالی*
شیو شرن بندھو ہتھگامی نظم “کب تک” ایک فکر انگیز تخلیقی اظہار ہے، جس میں شاعر نے معاشرتی اور سیاسی مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ نظم میں شاعر نے فرقہ واریت، مذہبی منافرت، اور سیاسی مفادات کے لیے عوام کے جذبات سے کھیلنے والوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
نظم “کب تک” کا بنیادی موضوع ہندستان میں جاری فرقہ وارانہ فسادات اور ان کے پس پردہ سیاسی مفادات ہیں۔ شاعر نے سوالیہ انداز میں ان مسائل کو پیش کیا ہے، نظم کا ہر مصرع ایک اہم سوال اٹھاتا ہے، جیسے “کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے؟”۔ یہ سوال شاعر کی بے چینی اور معاشرتی ناانصافی کے خلاف ان کے جذبات کی بھر پور انداز میں عکاسی کرتا ہے۔
نظم میں مذہبی منافرت اور سیاست کی بھر پور انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ شاعر نے ان عناصر کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
“مذہب کا چولا پہن کے کرتے ہو سیاست
لوگوں کے دل دماغ میں بھرتے ہو عداوت”
اس شعر میں شاعر اشعار مذہبی منافرت کے ذریعے سیاست کرنے والوں کی دوغلی پالیسیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
نظم میں انسانی ہمدردی اور اتحاد کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ نظم میں انسانی ہمدردی اور قومی اتحاد کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ شاعر مختلف مذاہب کے افراد کی مثال دے کر یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ سب مذہب والے ایک جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے:
“ہندو ہوں یا عیسائی ہوں، سکھ ہوں یا مسلماں
کتنی مصیبتوں سے بناتے ہیں آشیاں”
یہ اشعار سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
نظم میں فسادات کے نتائج کی عکاسی کی گئی ہے۔شاعر نے فسادات کے بھیانک نتائج کو واضح کیا ہے، جیسے لوگوں کے بے گھر ہونے اور بستیوں کے جلنے کا ذکر وغیرہ۔ یہ الفاظ قاری کو ان المناک حالات کا تصور کرنے پر مجبور کرتے ہیں جن کا شکار عام لوگ ہوتے ہیں۔
شاعر سیاسی مفادات کی مذمت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ شاعر نے سیاسی رہنماؤں کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے ان کے مفاد پرستی کے رویے پر شدید تنقید کی ہے مثلاً:
“ووٹوں کے لیے خون کی کھیلو نہ ہولیاں
کرسی کے لیے کتنی تباہی مچاؤ گے”
یہ اشعار سیاست دانوں کی بے حسی اور اقتدار کی ہوس کو نمایاں کرتے ہیں۔
نظم “کب تک” میں شاعر نے سادہ اور موثر زبان استعمال کی ہے جو عوام کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ سوالیہ انداز نظم کو مزید پراثر بناتا ہے اور قاری کو جواب تلاش کرنے پر اکساتا ہے۔ “کب تک” کا تکرار نظم میں احتجاجی انداز کو نمایاں کرتا ہے اور نظم کی گہرائی کو بڑھاتا ہے۔
نظم “کب تک ” کا سب سے بڑا حسن اس کی سادگی اور براہ راست مخاطبانہ انداز ہے، لیکن اس میں جذبات کی شدت بعض اوقات یکطرفہ معلوم ہوتی ہے۔ نظم میں سیاسی رہنماؤں پر تنقید تو کی گئی ہے، لیکن مسائل کے حل کے لیے کوئی واضح راہ تجویز نہیں کی گئی۔ اس کے باوجود یہ نظم ایک مؤثر احتجاجی آواز ہے جو عوام کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شیو شرن بندھو ہتھگامی کی یہ نظم ایک اہم سماجی مسئلے کی عکاسی کرتی ہے اور قاری کو معاشرتی اور سیاسی رویوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ یہ نظم فرقہ واریت کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے اور اتحاد، امن، اور انسانی ہمدردی کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے شیو شرن بندھو ہتھگامی کی نظم “کب تک” پیش خدمت ہے۔
*
کب تک (نظم)
*
لاشوں کی راجنیتی کہاں تک چلاو گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے
مذہب کا چولا پہن کے کرتے ہو سیاست
لوگوں کے دل دماغ میں بھرتے ہو عداوت
بھڑکاؤ بھاشنوں سے کہاں تک لڑاو گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے
ہندو ہوں یا عیسائی ہوں، سکھ ہوں یا مسلماں
کتنی مصیبتوں سے بناتے ہیں آشیاں
بے گھر کرو گے، لوگوں کی بستی جلاؤ گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے
مذہب کی، ذات پات کی سینکو نہ روٹیاں
ووٹوں کے لیے خون کی کھیلو نہ ہولیاں
کرسی کے لیے کتنی تباہی مچاؤ گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے
آپس کا میل جول مٹانے پہ تلے ہو
بھائی کو بھائی سے ہی لڑانے پہ تلے ہو
ہندوستاں کو کتنا اپاہج بناؤ گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ گے
اپنی زبان کھولو، بتاؤ ہمیں رہبر
بے خوف کیوں ہوئے ہیں، یہ قاتل، یہ فتنہ گر
کب تک فسادیوں کو یہاں سر چڑھاؤ گے
کب تک ہمارے ملک میں دنگے کراؤ
گے
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔