رحمت عزیز خان چترالی*
رفیق زاہد کی کتاب “کون کس کی تلاش میں” کو ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارہ پریس فار پیس پبلیکیشنز، لندن نے 2024 میں شائع کیا ہے۔
یہ افسانوی مجموعہ “کون کس کی تلاش میں” اردو ادب میں علامتی افسانوں پر مشتمل بہترین مجموعہ ہے۔ مصنف نے اپنے افسانوں میں انسانی جذبات، سماجی مسائل اور تاریخی پس منظر کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ اس مجموعے کی مرکزی کہانی “کون کس کی تلاش میں” فلسطین کے تنازعات پر ایک علامتی اور پُراثر تحریر ہے۔
کہانی کا مرکزی کردار ایک بوڑھی عورت ہے، جسے فلسطین کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بچے ایک ایک کرکے غائب ہو جاتے ہیں، اور وہ انہیں تلاش کرنے کے لیے سرگرداں رہتی ہے۔ یہ کہانی نہ صرف فلسطین کے کرب اور جدوجہد کی تصویر کشی کرتی ہے بلکہ عالمی برادری کی بے حسی پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ بوڑھی عورت کی لاٹھی کا سہارا لینا، اس کی کمزوری اور قوتِ ارادی دونوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ کہانی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ فلسطین اپنی شناخت اور بقا کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، مگر دنیا اس کے دکھوں کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
رفیق زاہد کا اسلوب سادہ لیکن موثر ہے۔ وہ مختصر جملوں اور مضبوط علامتوں کے ذریعے ایک وسیع تصور کو قاری کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان کی زبان رواں اور پُراثر ہے، جو قاری کو کہانی کے جذبات میں بہا لے جاتی ہے۔
“کون کس کی تلاش میں” میں سادگی کے باوجود کہانی کی گہرائی اور علامتی معنویت قاری کو چونکا دیتی ہے۔ یہ کہانی جذبات کی ایسی لہریں پیدا کرتی ہے جو قاری کو اپنے اندر الجھا لیتی ہیں۔
رفیق زاہد کے افسانے عام پاکستانی معاشرت اور خاص طور پر بلوچستان کے پس منظر میں لکھے گئے ہیں۔ ان کہانیوں میں غربت، عدم مساوات، محبت، دیہاتی زندگی کی مشکلات اور انسانی رشتوں کے پیچیدہ رنگ نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
“کون کس کی تلاش میں” ان کہانیوں میں ایک منفرد اضافہ ہے کیونکہ مصنف ان کہانیوں میں صرف سماجی مسائل پر بات نہیں کرتا بلکہ عالمی سیاسی مسائل کو بھی انسانی کہانی کے ذریعے پیش کرتا ہے۔
رفیق زاہد کا ادبی سفر 1991 میں شروع ہوا اور وہ اپنی مادری زبان بلوچی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے بلوچی افسانوں کا مجموعہ “کسہانی چادر” اور دیگر ادبی کام ان کی وسیع فکری صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
ان کی کہانیاں مختلف رسائل اور پلیٹ فارمز پر شائع ہو چکی ہیں، جس میں فلسطین کے پس منظر میں لکھا گیا یہ افسانہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مصنف نہ صرف ایک عمدہ کہانی نویس ہیں بلکہ بلوچی ادب کے لیے بھی بے لوث خدمات انجام دے رہے ہیں۔
رفیق زاہد کا افسانوی مجموعہ “کون کس کی تلاش میں” قاری کو ایک نئے زاویے سے مسئلہ فلسطین کے بارے میں سوچنے اور غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس کہانی میں مصنف انسانی جذبات، اجتماعی دکھ، اور عالمی بے حسی کو منفرد انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
مصنف کی تحریری مہارت قاری کو کہانی کے ہر لفظ سے آخر تک باندھ کر رکھتی ہے۔ سادہ مگر علامتی انداز میں مصنف نے نہ صرف فلسطین کے کرب کو بیان کیا ہے بلکہ قاری کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ مسائل کی جڑ طاقتوروں کی بے حسی اور مظلوموں کی بے بسی میں پنہاں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “کون کس کی تلاش میں” رفیق زاہد کے تخلیقی وژن کا مظہر ہے۔ یہ افسانوی مجموعہ نہ صرف ادب کے قارئین کے لیے بلکہ ان کے لیے بھی اہم کتاب ہے جو فلسطین جیسے مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یہ کہانی ایک علامتی پیغام ہے جو قاری کے دل و دماغ پر دیرپا اثرات چھوڑتی ہے اور اس کے شعور کو بیدار کرتی ہے۔
رفیق زاہد کی اس کاوش کو نہ صرف اردو ادب بلکہ عالمی افسانوی ادب میں بھی نمایاں مقام حاصل ہوگا ان شا الله۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانیاں تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
رحمت عزیز چترالی کا میرے افسانوں کی کتاب کون کس کی تلاش میں ؟،،پر ایک جاندار تبصرہ ۔جو مجھے بہت ہی زیادہ اچھا لگا