ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

خرم خلیق کی نظم “ماں کہتی تھی” کا تجزیاتی جائزہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

خرم خلیق ایک ہمہ جہت تخلیقی شخصیت ہیں جن کا تعلق بحریہ ٹاؤن، اسلام آباد سے ہے۔ وہ ایڈورٹائزنگ کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں اور مختلف اصناف ادب میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے تخلیقی کام میں اسکرپٹ رائٹنگ، شاعری، نثر نگاری، فیچر، افسانے، اور کالم شامل ہیں۔ خرم خلیق کی شاعری میں غزل، نظم، گیت، حمد، نعت، سلام، اور منقبت جیسے موضوعات شامل ہیں، جو ان کے تخلیقی دائرہ کار کو وسیع تر بناتے ہیں۔ وہ ریڈیو اور رسائل کے لیے فیچر رائٹنگ اور ٹی وی کے لیے اشتہاری گیت (jingles) تخلیق کرنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں، جو ان کے فنی تنوع اور تخلیقی صلاحیتوں کا ثبوت ہے۔ خرم خلیق کا کام نہ صرف ادب بلکہ تجارتی میدان میں بھی ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔
ماں کے بارے میں ان نظم ایک دلگداز اور جذباتی تخلیق ہے، جو انسانی رشتوں، خاص طور پر ماں اور بیٹے کے تعلق کی گہرائیوں کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ نظم وقت کے بدلتے تقاضوں اور رشتوں میں آنے والے فاصلوں پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے۔
نظم کا مرکزی موضوع ماں اور بیٹے کے تعلقات اور وقت کے ساتھ ان میں آنے والی تبدیلی ہے۔ اس نظم میں شاعر بیٹے کی مصروفیات اور ماں کی محبت کے بیچ پیدا ہونے والے فاصلوں کو بیان کرتا ہے۔ شاعر نے ان لمحات کو اجاگر کیا ہے جب بیٹا اپنی مصروف زندگی میں ماں کو وقت نہیں دے پاتا، لیکن وقت گزرنے کے بعد یہی ماں بیٹے کی یادوں کا مرکز بن جاتی ہے۔
نظم میں جذبات کی شدت نمایاں طور محسوس کی جاسکتی ہے۔ شاعر نے ماں کی شفقت، دعاؤں، اور محبت کو نہایت سادگی اور گہرائی سے پیش کیا ہے۔ ابتدا میں بیٹے کا رویہ ایک عام انسان کی طرح ہوتا بے جو کہ فکری اور مصروفیت کا مظہر ہے، لیکن ماں کی وفات کے بعد وہی بیٹا اپنے ماضی پر پچھتاوا کرتا ہے اور ماں کو یاد کر کے روتا رہتا ہے۔ اس تضاد کے ذریعے خرم خلیق نے انسانی فطرت کے ایک حساس پہلو کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔

خرم خلیق کا اسلوب سادہ، رواں اور دلکش ہے۔ انہوں نے روزمرہ کے الفاظ اور محاورات کا استعمال کرتے ہوئے زندگی کے ایک کڑوے سچ کو پیش کیا ہے۔ نظم کی روانی اور زبان قاری کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ شاعر نے غیر ضروری پیچیدگیوں سے گریز کیا ہے، جس سے نظم کا اثر دوچند ہو جاتا ہے۔

نظم مکالماتی انداز میں لکھی گئی ہے، جو اس کی اثر پذیری میں اضافہ کرتا ہے۔ ماں اور بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو ایک عام گھریلو منظر کی عکاسی کرتی ہے، لیکن اس کے پیچھے چھپی ہوئی گہری معنویت قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

نظم کا پیغام واضح اور دلنشین ہے: ہمیں اپنی مصروفیات کے باوجود اپنے عزیزوں، خاص طور پر اپنے والدین، کے لیے وقت نکالنا چاہیے، کیونکہ وقت گزرنے کے بعد پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ خرم خلیق کی نظم “ماں کہتی تھی” جذباتی اور فکری لحاظ سے ایک اہم تخلیق ہے، جو نہ صرف انسانی رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ قاری کو اپنے رویے پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی دیتی ہے۔ یہ نظم ان قارئین کے دلوں میں گہرا اثر چھوڑتی ہے جو اپنے والدین کی محبت اور قربانیوں کی قدر کرنا چاہتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے خرم خلیق کی نظم پیش خدمت ہے۔
*
ماں کہتی تھی(نظم)
*
ماں کہتی تھی ۔۔۔
تم دیر سے گھر کیوں آتے ہو ۔۔
آتے ہو پھر کھو جاتے ہو ۔۔۔
کچھ لمحوں کی ان باتوں سے ۔۔
دن بھر کی پیاس نہیں بجھتی ۔
میں ہنستا تھا اور کہتا تھا ۔۔
مصروف ہوں ماں ۔۔
دفتر ھے ، بیوی بچے ہیں ۔۔۔
اور آپ بھی ہیں ۔۔۔
میں سب کے ساتھ نبھاتا ہوں ۔
خود سے بھی مل نہیں پاتا ہوں ۔
ماں مجھ کو دعائیں دیتی تھی ۔
اور میری بلائیں لیتی تھی ۔۔
یہ وقت نے کیسی کروٹ لی ۔۔
کل یاد مجھے ماں کرتی تھی ۔۔
میں ہنستا تھا ۔۔
اب ماں کو یاد میں کرتا ہوں ۔
اور روتا ہوں ۔۔۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں