*
ظرفِ ظرافت
*
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
*
نوید ظفر کیانی کی کتاب “ڈگڈگی” طنز و مزاح کے میدان میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے موجودہ سماجی، سیاسی اور ثقافتی حالات پر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں ڈگڈگی بجاکر اظہار خیال کیا ہے۔ کتاب کے پیش لفظ سے لے کر ہر نظم اور غزل تک، یہ مزاح، طنز، اور تخلیقی انداز کے خوبصورت امتزاج کا شاہکار ہے۔ کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ قارئین کو ہنساتے ہوئے گہرے موضوعات پر غور کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ نوید ظفر کیانی کہتے ہیں
”ڈگڈگی“ کا بس ایک ہی مقصد ہے، اور وہ ہے مسکروانا ۔۔۔ مسکراہٹ چاہے زیرِ لب ہو یا گالوں پر ارتعاش کا باعث بنے۔۔۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اِس میں موجودہ حالات کے حوالے سے زبانِ خلق کی تکخی بھی موجود ہے جو نقّارۂ خدا ہے، چنانچہ اِس پر ”زُود رنج حضرات“ کوچیں بہ جبیں ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ اہلِ ذوق میری کئی ایک نظموں کو علامتی قرار دے سکتے ہیں، تاہم میرا اُن سے متفق ہونا ضروری نہیں، مثلاً کُتّوں سے ڈرنے کا مشورہ دینا کسی خلائی مخلوق کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ خالصتاً اِن کُتّوں سے وہی کُتّے مراد ہیں جو خاصے کُتّے واقع ہوئے ہیں۔ سرِ راہے بلا تکلف استراحت فرما رہتے ہیں اور ہر گزرنے والوں کو اِس طرح خونخوار نظروں سے گھورتے ہیں جیسے اُنہوں نے اُس کی جائداد پر غیر قانونی قدم دھرا ہو”۔
“ڈگڈگی” میں مصنف نے موجودہ دور کے نازک حالات کو طنز و مزاح کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ کتاب کا موضوعاتی دائرہ وسیع ہے، جس میں سیاسی معاملات، سماجی رویے، اور عوامی مسائل کو طنز و مزاح کے ذریعے نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر نظم “سوشل / کھوچل میڈیا” میں مصنف نے موجودہ دور کی میڈیا پالیسیوں اور عوام کے رویے پر مزاح کے پیرائے میں روشنی ڈالی ہے۔ لمرک کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں
” لمرک انگریزی صنفِ سخن ہے جو خالصتاً طنز و مزاح کے لئے معرضِ وجود میں لائی گئی تھی، اُردو ادب میں اسے کوئی خاص لفٹ نہیں کرائی گئی، بس شیخ نذیر احمد تھے جنہوںنے محض اِس کا تعارف کروایا ہے اور درجن ڈیڑھ درجن لمرکس تخلیق کی ہیں جو بذاتِ خود خاصے کی چیز ہیں۔ اِس کتاب میںکہیں کہیں ”نظمِ معین“ نامی چیز بھی آپ کو نظر آئے گی۔ یہ نظم میری اختراع ہے جو اپنی مخصوص ہئیت کے باعث خاصی موثر ہے۔ جب کوئی خیال کسی لٹو کی نوک پرگھوم پھر کر اُسی لفظ پر آ کر ٹھہر جائے جہاں سے اُس نے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا تو یہ کاوش اِسی نظم میں ممکن ہے۔ نظمِ معین کی ہئیت متعین ہے لیکن اس کی جسامت متعین نہیں، یہ سات مصرعوں پر مشتمل بھی ہو سکتی ہے اور اُس سے زیادہ بھی، بس اِس کی جُفت بدنی کا خیال رکھنا ہو گا”۔
کتاب کا بنیادی موضوع طنز و مزاح کے ذریعے سماج کے مختلف پہلوؤں پر تنقید برائے اصلاح کرنا ہے۔ نوید ظفر کیانی نے اپنے کلام میں موجودہ دور کی منافقت، سیاستدانوں کی چالاکیوں، اور عوامی رویوں پر بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ ان کا طنز ایک آئینہ ہے، جس میں معاشرے کے مختلف طبقات اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں۔پوربی عاشق کے بارے میں کہتے ہیں
تعلقات کو فائن کریں، ضروری نہیں
یوں خود کو بھتنا و ڈائن کریں، ضروری نہیں
یہ تُو یا میں نہیں ناداں! ہیں پوربی عاشق
نکاح نامے پہ سائن کریں، ضروری نہیں
کتاب میں مختلف اصناف سخن کو استعمال کیا گیا ہے، جن میں نظم، غزل، لمرک، اور نظمِ معین شامل ہیں۔ یہ اصناف مختلف مزاحیہ اور طنزیہ موضوعات کو بہترین انداز میں بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں۔ نظمِ معین، جو مصنف کی اپنی اختراع ہے، خاص طور پر دلچسپ ہے۔ اس صنف کی مدد سے انہوں نے مختصر لیکن جامع انداز میں اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ کیجیے:
جس کی نزاکتوں کے فسانے سُناتا ہوں
کہتا ہے مجھ کو پیار سے ”سنڈا“ بھی غالباً
نوید ظفر کیانی نے طنزیہ اور مزاحیہ رنگ کو نمایاں کرنے کے لیے مختلف ادبی آلات بھی استعمال کیے ہیں، جن میں طنزیہ و مزاحیہ تشبیہات اور استعارے شامل ہیں۔ کتاب میں استعارے اور تشبیہات کا استعمال قارئین کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، جیسے “کھو چل میڈیا” کا استعارہ وغیرہ وغیرہ۔ ظفر چار نمبر گیٹ کی بات کرکے یوں کہتے ہیں:
رائے عامہ کی یہیں ہوتی ہے قطع و برید
اِس سے بالا بالا جو گھوڑی چڑھا وہ وڑ گیا
ہر سیاست دان قبلۂ سیاست دیکھ لے
چار نمبر گیٹ میں جو نہ وڑا وہ وڑ گیا
ان کے طنزیہ اشعار گہرائی کے ساتھ مزاح کے رنگ بھی لیے ہوئے ہیں، جیسے:
وقت قیلولہ ہے، اے سی بھی آن ہے
آپ دفتر میں سولیں تو کیا بات ہے
کئی نظمیں علامتی انداز میں لکھی گئی ہیں، جنہیں قارئین مختلف زاویوں سے سمجھ سکتے ہیں۔ چِیں کرو یا پِیں کے عنوان سے لکھتے ہیں
جمہورِ پاک نے سسٹم کے
آسیب کدے میںگلنا ہے
کتنے ہی ڈول نکالو آب
کُتّے نے کنویں میں رہنا ہے
پیش لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مصنف نے سماجی حالات کو طنز و مزاح کے پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ معاشرتی مسائل کی سنگینی کو مزاحیہ انداز میں پیش کرنا ضروری ہے تاکہ قارئین اسے قبول کر سکیں۔ کتاب میں نظم “سوشل / کھوچل میڈیا” موجودہ دور کے میڈیا کے دو رخوں کو مزاحیہ لیکن حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرتی ہے۔
غزلوں میں موجودہ سیاست پر طنزیہ تبصرے، مثلاً “نانی مریم نواز”، عوام اور سیاستدانوں کے تعلقات کو خوبصورتی سے اجاگر کرتے ہیں۔ ایک لمرک میں لکھتے ہیں
یونہی دیدوں کو مت جما کر ہی دیکھو
ذرا سامنے خود کو لاکر ہی دیکھو
اگر دیکھنا ہو
حسینہ کا فوٹو
تو پھر اپنی وگ کو ہٹا کر ہی دیکھو
شاعر کی زبان رواں، شگفتہ، مزاحیہ، طنزیہ اور موثر ہے۔ انہوں نے لمرک اور نظمِ معین جیسی اصناف کے ذریعے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔ کیانی کی مخمس بھی لاجواب ہے :
نوکری ہو تو کماتے ہوئے مر جاتے ہیں
نہ ہو تو ہم اسے پاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یا کہیں ڈنکی لگاتے ہوئے مر جاتے ہیں
”دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں“
“ڈگڈگی” طنز و مزاح کی ہنسی اور قہقہوں سے بھرپور ایک بہترین کتاب ہے جو نہ صرف قارئین کو ہنسانے بلکہ سوچنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب نوید ظفر کیانی کی تخلیقی مہارت، طنزیہ صلاحیت، اور موجودہ حالات پر گہری نظر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ٖڈگڈگی قارئین کے لیے نہایت دلچسپ اور سبق آموز بھی ہے، اور ہر وہ قاری جو ادب میں مزاح اور طنز کا ذوق رکھتا ہے، اس کتاب سے بھرپور لطف اندوز ہوگا۔ میں نوید ظفر کیانی کو ڈگڈگی کی اشاعت پر ڈگڈکی بجا کر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔