ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭
ایک افسوس ناک خبر یہ ہے کہ یونانی سمندر میں پیش آنے والے المناک حادثے نے ایک بار پھر انسانی اسمگلنگ کے سنگین مسئلے کی نشاندہی کی ہے۔ اس حادثے میں پانچ کشتیوں کے ڈوبنے کی اطلاعات ہیں جن میں 40 پاکستانی جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ مزید 35 افراد لاپتہ ہیں جنہیں یونانی حکام نے مردہ قرار دے دیا ہے۔
یہ واقعہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ انسانی اسمگلنگ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سنگین چیلنج بن چکی ہے۔ لیبیا میں پاکستانی اور مقامی ایجنٹوں کے پاس یورپ جانے کے خواہشمند پانچ ہزار پاکستانی موجود ہونے کی اطلاعات اس مسئلے کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔
پاکستان سے غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں۔ 1970 کی دہائی میں مشرق وسطیٰ میں روزگار کے مواقع کے سبب پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے وہاں کا رخ کیا۔ تاہم حالیہ برسوں میں یورپ کی طرف غیر قانونی نقل مکانی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2022 میں یونان کے اسی علاقے میں 262 پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے بعد بھی انسانی اسمگلنگ کے خلاف مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔
انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک پاکستان سمیت پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لیبیا اور دیگر ممالک میں موجود ایجنٹ، جو سادہ لوح پاکستانیوں کو جھانسہ دے کر غیر قانونی راستوں سے یورپ بھیجنے کا وعدہ کرتے ہیں، اس مسئلے کی جڑ ہیں۔
مروجہ قوانین میں ایسے کمزور پہلو موجود ہیں جو انسانی اسمگلروں کو سزا سے بچنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں بیروزگاری اور غربت کے سبب لوگ بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنی جان خطرے میں ڈالنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ حادثات کے باوجود انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کے خلاف سنجیدہ اقدامات نہ کیے جانا حکومتی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور گزشتہ برس کے دوران پیش آنے والے ایسے واقعات کی رپورٹ طلب کی ہے جن میں پاکستانی ایجنٹ ملوث پائے گئے۔ یہ اقدامات وقت کی ضرورت ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یونان کے اسی علاقے میں گزشتہ حادثے کے بعد بھی انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی غیر سنجیدہ کیوں رہی؟ پاکستانی عوام اس سوال کا جواب چاہتی ہے۔
انسانی اسمگلنگ کے خلاف قوانین کو مزید سخت اور مؤثر بنایا جائے تاکہ اسمگلروں کو قرار واقعی سزا دی جاسکے۔
لوگوں کو غیر قانونی نقل مکانی کے خطرات اور انسانی اسمگلروں کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کرنے کے لیے مہم چلائی جائے۔
یونان اور دیگر ممالک کے ساتھ مل کر انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے مشترکہ کارروائیاں کی جائیں۔
ملک میں روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ لوگ غیر قانونی راستوں کا سہارا لینے پر مجبور نہ ہوں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یونانی سمندر میں پیش آنے والا یہ حادثہ انسانی اسمگلنگ کے سنگین نتائج کی یاد دہانی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرتی شعور اور بین الاقوامی تعاون کی بھی اشد ضرورت ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم اس المیے کا خاتمہ کرسکتے ہیں اور معصوم جانوں کو بچا سکتے ہیں۔ امید ہے کہے ایف آئی اے اور دیگر حکام انسانی سمگلر نما ایجنٹوں کے خلاف بروقت کارروائی کرکے مزید انسانی جانوں کو بچانے میں اپنا اخلاقی فریضہ پورا کریں گے ان شاء اللہ۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔