ڈاکٹر مظہر عباس، ایک ہمہ جہت شاعرِ ظرافت

ڈاکٹر مظہر عباس، ایک ہمہ جہت شاعرِ ظرافت

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی٭

ڈاکٹر مظہر عباس رضوی پیشے کے لحاظ سے چائلڈ اسپیشلسٹ ہیں مگر ادب میں ظرافت اسپیشلسٹ ہیں۔ اگرچہ ان کی تین کتب
منظر عام پر آچکے ہیں جن میں ڈاکٹری میں رسوا، دوا بیچتے ہیں اور ہنسپتالی شاعری خالصتا ان کے اپنے شعبہ طب پر ہیں جو اردو ادب میں ایک منفرد بات ہے مگر ان کی دیگر کتب گڑ بڑ گھوٹالہ، سخن ظریفی، ظریفانہ آے ہنسا کر چلے
اور دخل در ماکولات
اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ کنوئیں کے مینڈک نہیں بلکہ زندگی کے ہر موضوع میں حسن ظرافت ڈھونڈنے کے ماہر ہیں۔
زیر نظر مضمون میں
ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی کی کتاب ’’ستم ظریفی‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ ان کی کتاب ’’سخن ظریفی‘‘ شگفتہ، طنزیہ و مزاحیہ شاعری کا مجموعہ ہےجس میں وہ معاشرتی مسائل، سماجی رویوں، اور روزمرہ زندگی کے تضادات کو نہایت عمدگی اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ کتاب شمع پبلشرز فیصل آباد کی طرف سے شائع کی گئی ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے روٹی، کپڑا اور مکان والے منشور کو یوں بیان کرتے ہیں:
اپنا ہو بس ایک مکان
کوئی نہیں اس کا امکان
اب فٹ پاتھ ہے گھر کا لان
کرتی ہے پولس چالان
بن جا سرکاری مہمان
روٹی کپڑا اور مکان
کتاب میں ڈاکٹر مظہر عباس رضوی نے زندگی کے مختلف پہلوؤں کو مزاحیہ پیرائے میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری میں نہ صرف معاشرتی مسائل کی عکاسی نظر آرہی ؎ ہے بلکہ انسانی نفسیات، سیاسی حالات، اور روزمرہ کے تجربات کو بھی طنزیہ اور شگفتہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر رضوی معمولی واقعات کو بھی مزاحیہ انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جیسے
بقر عید پر ڈاکٹر صاحب قربانی کی صورت حال کو یوں رقم کرتے ہیں:
بیل بھاگا برسرِ بازار بقرہ عید پر
ہوگئے ہم تو ذلیل و خوار بقرہ عید پر
جس کو پالا تھا بڑے چائو سے ہم نے سال بھر
پڑ گیا بکرا وہی بیمار بقرہ عید پر
آگیا ’’ ڈینٹسٹ ‘‘ کو وہ لے کے دوندا دیکھنے
ہوگیا گاہک بڑا ہشیار بقرہ عید پر
ان کی ایک نظم ”بنام امریکہ” بہت مشہور ہوئی تھی جو کہ ۲۰۱۱ کے عالمی سیاسی تناظر میں لکھی گئی تھی۔تاہم یہ مسائل آج پہلے سے زیادہ شدت اختیار کرگئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
’’جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں‘‘
وہاں پر اودھم ہی اودھم دیکھتے ہیں
عرب ، شام ، بحرین اور لیبیا میں
ہر اک جا پہ تیرے ستم دیکھتے ہیں
ان کی شاعری میں ادبی چاشنی کے ساتھ مزاحیہ پہلو بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جیسے:
استخواں ہیں بدن میں ہر جانب
گوشِ خانہ خراب میں ہڈّی
ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کا اسلوب سادہ، رواں، طنزیہ، مزاحیہ اور برجستہ ہے۔ ان کی شاعری میں زبان کا استعمال نہایت فطری اور عام فہم ہے، جس سے قاری کو اشعار سمجھنے اور ان سے لطف اندوز ہونے میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ ان کے اشعار میں طنز کی گہرائی اور مزاح کی لطافت دونوں موجود ہیں۔ بجٹ کے بارے میں کہتے ہیں:
مہنگی ہوئی بیگم کی اگر شال بجٹ میں
آئے گی مری شامتِ اعمال بجٹ میں
حیران ہوں میں اس سے نکل پائوں گا کیونکر
بُنتے ہیں مرے گرد جو وہ جال بجٹ میں
’’ستم ظریفی‘‘ اردو مزاحیہ شاعری میں ایک تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ ڈاکٹر مظہر عباس رضوی نے اپنی مزاحیہ شاعری کے ذریعے قاری کو نہ صرف ہنسنے اور قہقہ لگانے کا موقع فراہم کیا ہے بلکہ وہ معاشرتی مسائل پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی غزلیات محض ہزلیات نہیں ان کے یہ اشعار ان کی فنی چابکدستی کے غماز ہیں

اّبا ترے گر دورے پہ جاپان نہ ہوتے
پھر تجھ سے ملاقات کے اِمکان نہ ہوتے
اِک فلسفی بیٹھا ہوا یہ سوچ رہا تھا
عینک میں کہاں رکھتا اگر کان نہ ہوتے
پھر ماہرِ دنداں کی پریکٹس بھی نہ چلتی
بتیس اگر منہ میں یہ دندان نہ ہوتے
یہ دیکھئے کیا خوب ہے مردوں کی لپ اسٹک
لب سرخ نہ ہوتے مرے ، گر پان نہ ہوتے
آجاتی نظر آپ کو درگت جو ہماری
شادی کے لئے اتنا پریشان نہ ہوتے
ڈاکٹر رضوی نے طنز اور مزاح کا بہترین امتزاج پیش کیا ہے لیکن بعض مقامات پر مزاح زیادہ سطحی محسوس ہوتا ہے، جسے مزید نکھارا جا سکتا تھا۔ شاعر روٹھی بیوں سے یوں خطاب کرتا ہے:
جو دیکھے تھے سپنے سہانے ترے
کہیں ہو گئے گُم فسانے ترے
نہ پہلی سی اب وہ محبت رہی
نہ پہلے سے ہیں دوستانے ترے
’’لڑائی کے منظر نگاہوں میں ہیں‘‘
وہ کانوں میں گونجیں ہیں طعنے ترے
گئی مجھ سے لڑ کر مری جان کیوں
بتا حُکم میں نے نہ مانے ترے؟
اگر کام سے تھک گئی ہے بتا
دبانے کو آجائوں شانے ترے
’’بس اک داغِ چمٹا مری کائنات‘‘
جبیں پر رقم ہیں فسانے ترے
ان کے سیاسی اشعار میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہری بصیرت بھی جھلکتی ہے، لیکن ان کا دائرہ محدود ہے اور عالمی سیاست کے مزید پہلوؤں کو شامل کیا جا سکتا تھا۔ ڈھٹائی کے اس دور میں چچا غالب سے بغیر معذرت کے شاعر کہتا ہے:
کھاتا ہے چنے اور مکافاتِ عمل میں
کرتا ہے شب و روز دھماکا مرے آگے
حجّام نے گنجے سے کہا معاف کریں جی
میں گھاس کہاں ڈھونڈوں ہے صحرا مرے آگے
یہ ٹھیک ہے میخانے میں موجود تھا میں بھی
بیٹھے تھے مگر حضرتِ والا مرے آگے
وہ معاشرتی مسائل کو نہایت خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں لیکن بعض موضوعات پر مزید تفصیل کی گنجائش ہے۔ اختر شیرانی سے معذرت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
رہتی نہیں ہے کوئی بھی خواہش پھر اسکے بعد
یرقانِ جیب کرتا ہے یرقانِ آرزو
اِس دورِ مارکیٹ نے پھیلائی مارپیٹ
انسان کو بنادیا حیوانِ آرزو
اُٹھتے ہیں روز خواہشیں لے کر نئی نئی
ہوتے ہیں روز دست و گریبانِ آرزو
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر سید مظہر عباس رضوی کی کتاب ’’ستم ظریفی‘‘ اردو مزاحیہ شاعری کے شائقین کے لیے ایک قیمتی تحفہ ہے۔ ان کی شاعری قاری کو ہنسنے کے ساتھ ساتھ سوچنے اور غور و فکر کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے۔ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے خاص طور پر دلچسپ ہوگی جو طنز و مزاح کو ادب کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔
’’سخن ظریفی‘‘ اردو ادب میں ڈاکٹر مظہر عباس رضوی کی انفرادیت اور تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے وہ کہتے ہیں:
کون کہتا ہے کہ اُس کا حوصلہ کم پڑ گیا
عاشقِ صادق کو سینڈل کا تلا کم پڑ گیا
دس پراٹھے ، بیس انڈے اور دو حلوے کے تھال
مولوی صاحب کو پھر بھی ناشتہ کم پڑگیا
جب نہائے ختم پانی سارے گھر کا کردیا
پونچھنے بیٹھے تو اُن کو تولیہ کم پڑ گیا
٭
کتاب سے کچھ نمونہ کلام پیش خدمت ہے
٭
محفل میں تری، جی کے جلانے کے لئے ہم
آنے کے لئے وہ ہیں تو جانے کے لئے ہم
کھانے تو رقیبوں نے سرِ بزم اُڑائے
اور رہ گئے ہیں گالیاں کھانے کے لئے ہم
الطاف و عنایات کسی اور پہ اُن کی
بازار میں شاپنگ کرانے کے لئے ہم
٭
جب قوم ہی ساری ہو امداد کے چکّر میں
شاعر نہ بھلا کیوں ہو پھر داد کے چکّر میں
امریکہ سے منگوا کر مٹّی میں جونہی ڈالی
گندم بھی نکل آئی پھر کھاد کے چّکر میں
٭
کرتا ہے شبِ ہجر میں دل تنگ ہمیشہ
سوجاتا ہوں میں پی کے جبھی بھنگ ہمیشہ
ہمسائی کے سائے سے بھی بچ ورنہ ترے گھر
بجتا ہی رہے گا طبلِ جنگ ہمیشہ
وہ پھولے سماتے نہیں ہیں دیکھ کے اُس کو
جامہ وہ پہنتا ہے ذرا تنگ ہمیشہ
٭
میں کھانا چاہوں تو یک بار کھینچ لیتا ہے
پڑوسی شاخِ ثمردار کھینچ لیتا ہے
ہماری بات مکمل بھی ہو نہیں پاتی
ستم ظریف کوئی تار کھینچ لیتا ہے
وہ شوخ مجھ کو کریلے کھلا کے ، سامنے سے
تمام کھانے مزیدار کھینچ لیتا ہے
٭
کریں پڑوسی کے مرغے کو ذبح چپکے سے
اچانک آئے پڑوسن تو کیا کیا جائے
گلا تو عرضِ تمنا کا گھونٹنا ہی پڑے
حکیم دیں ہمیں چورن تو کیا کیا جائے
٭اب ذرا ان کے قلم سے
ادبی محبوبہ کی تصویر ملاحظہ کریں
سوچئے تصویرِ محبوبِ حسیں
سانپ ہوں برعکسِ زلفِ عنبریں
ہے تصور ایسے انساں کا محال
چشمِ انساں کی جگہ چشمِ غزال
جھیل کی گہرائی ہو رُخ پر کہیں
آنکھ کہلائے گی وہ ہرگز نہیں
٭
استخوانی غزل
اُستخواں ہیں بدن میں ہر جانب
گوشِ خانہ خراب میں ہڈّی
ہیں گرانی میں چھیچھڑے نایاب
اب نظر آئے خواب میں ہڈّی
بولا سرجن اِک آرتھوپیڈک
کانٹا کیا ہے گلاب میں ہڈّی
مُرغ سالم ڈکار لے واعظ
اور میرے ثواب میں ہڈّی
غرض یہ تمام اشعار اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ڈاکٹر مظہر عباس رضوی پہ ڈاکٹری شاعری کا لیبل چسپاں کرنا مناسب نہیں۔ ڈاکٹری کے شعبے پر ان کی شاعری ایک منفرد کام ہے جو ایک الگ اور بھرپور مضمون کا متقاضی ہے۔ میں اس مہنگائی اور ٹینشن کے دور میں اپنی مزاحیہ شاعری کے ذریعے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ لانے لانے پر شاہ صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں