ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر کی پنجابی نظم عورت کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر کی پنجابی نظم عورت کا تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*

ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر حمد شریف، نعت رسول مقبول ﷺ، غزل اور نظمیں لکھتے ہیں۔ ان کی پنجابی زبان میں لکھی گئی نظم “عورت” ایک بہترین تخلیق ہے اس نظم میں شاعر عورت کی اہمیت، اس کے مختلف کرداروں، اور دنیا پر اس کے اثرات کو منفرد انداز میں پیش کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس نظم میں شاعر عورت کو نہ صرف ایک وجودی حقیقت کے طور پر بلکہ ایک تخلیقی، جمالیاتی، اور تہذیبی قوت کے طور پر بھی پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
نظم کا موضوع عورت کی کثیر الجہتی شخصیت اور اس کے مختلف کرداروں کو محیط ہے۔ شاعر نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی، اور محبوبہ کے روپ میں نظم کا موضوع بنایا کیا ہے اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ دنیا کی تمام رونقیں، محبتیں، اور خوبصورتی عورت کی موجودگی سے مشروط ہیں۔ نظم کے ابتدائی اشعار میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر عورت نہ ہوتی تو دنیا کی کوئی بھی کشش اور رنگینی ممکن نہ ہوتی مثلاًً:
تُوں نہ ہُندی تے دنیا تے
میرا کوئی کَم نہ ہُندا
نظم میں عورت کی تخلیقی اور تہذیبی اہمیت پر بھی بات کی گئی ہے۔ شاعر نے عورت کو تخلیق اور تہذیب کا محور قرار دیا ہے۔ وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ عورت کے بغیر نہ پھول کھلتے، نہ پرندے گاتے، نہ ہی دنیا میں محبت اور امن کا تصور ہوتا۔ یہ اشعار عورت کی تخلیقی قوت کو اجاگر کرتے ہیں مثال کے طور یہ شعر ملاحظہ کیجیئے:
نہ باگاں وچ پُھل کِھڑیندے
نہ پَکھیاں دے گیت سُنیندے
نظم میں عورت کو رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت سے بھی تشبیہ دی گئی ہے۔ نظم شاعر نے میں عورت کی موجودگی کو رحمت اور زحمت دونوں کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاعر نے دنیا کے پہلے جھگڑے کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عورت کی وجہ سے ہوا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ عورت کی موجودگی کے بغیر سکون ممکن نہ ہوتا۔ یہ متضاد خیالات اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ عورت کی شخصیت پیچیدہ اور ہمہ جہت ہے جیسے:
تیرا ہونا رحمت وی اے
تیرا ہونا زحمت وی اے
شاعر نے عورت کو کئی علامتوں اور استعاروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ وہ عورت کو جنت کا سایہ، محبت کا منبع، اور زندگی کی روح قرار دیتے ہیں۔ یہ اشعار عورت کی تقدیس اور احترام کو واضح کرتے ہیں مثلاً:
جنت دی تو ں چھاں ایں ماں ایں
بَھین بنیں تے تیرا ای ناں ایں
شاعر نے عورت کے تمام پہلوؤں کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن نظم کے کچھ حصے تکرار کا شکار نظر آتے ہیں۔
نظم کی زبان سادہ اور عام فہم ہے، لیکن کچھ مقامات پر خیالات کی گہرائی کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا جا سکتا تھا۔
شاعر نے عورت کی موجودگی کو کائناتی اصولوں سے جوڑنے کی کوشش کی ہے، جو نظم کو ایک فکری گہرائی عطا کرتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر کی نظم “عورت” عورت کی عظمت اور اہمیت کو اجاگر کرنے والی ایک خوبصورت تخلیق ہے۔ یہ نظم نہ صرف عورت کے مختلف کرداروں کو سراہتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ دنیا کی تمام خوبصورتی اور محبت عورت کی موجودگی سے مشروط ہے۔ نظم کے فکری اور جذباتی پہلو قاری کو عورت کے مقام پر غور و فکر کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ڈاکٹر احمد عبداللہ قمر کی پنجابی نظم”عورت” پیش خدمت ہے۔
*
عورت (نظم)
*
تُوں نہ ہُندی تے دنیا تے
میرا کوئی کَم نہ ہُندا
نہ دنیا تے رونق ہُندی
نہ پُھل رنگ برنگے ہُندے
نہ ما یا دی موہ پرچَوندی
نہ فیر ایتھے دَنگے ہُندے
کھو کِھچ تیرے باہجھ نہ ہُندی
دنیا اُتے پہلا دَنگا
سُنیا ایں تیرے کرکے ہو یا
تُو ں نہ ہُندی شانتی ہُندی؟
تیرا ہونا رحمت وی اے
تیرا ہونا زحمت وی اے
دنیا دی ایہ ساری رونق
دولت، عزت ،شہرت ،شوکت
دنیا نال ایہ موہ محبت
تیرے باہجھ کدی نہ ہُندی
نہ باگاں وچ پُھل کِھڑیندے
نہ پَکھیاں دے گیت سُنیندے
نہ رَنگاں دی ہولی ہُندی
نہ اَسمانیں تار ےہُندے
نہ ایہ محل منارے ہُندے
بُلّھا ں اُتے گیت نہ ہُندے
سازاں وِچ سنگیت نہ ہُندے
تیرے سارے روپ نیارے
جنت دی تو ں چھاں ایں ماں ایں
بَھین بنیں تے تیرا ای ناں ایں
دھی دے باہجھ حیاتی کاہدی
گھر والی توں مالک ساہ دی
رانجھا تیرے باہجھ نہ ہُندا
مرزے دا کوئی کاج نہ ہُندا
پُنّوں دے سِر تاج نہ ہُندا
نانک چَھک تے داج نہ ہُندا
تیرے لئی کوئی مرزا ہو یا
پِنڈا تِیراں وِچ پرویا
کوئی مجّھاں دا چھیڑو بنیا
بیلے عشق دا تانا تنیا
گل مکاواں
دنیا دا اے میلا تیرے باہجھ نہ سجدا
جے نہ ہنُدی اماں حوّا
آدم جنت توں کیوں رَجدا

*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ اردو، انگریزی اور کھوار زبان میں لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں