ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
جمال احسانی منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں زندگی کے مختلف پہلوؤں، محبت، ہجر، وصال، تنہائی، اور انسانی نفسیات کی عکاسی اس انداز سے کی گئی ہے کہ قاری کو اپنی ذات کا عکس محسوس ہوتا ہے۔ ان کی شاعری جدید اردو غزل کی بہترین مثال ہے، جہاں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
جمال احسانی کے اشعار میں محبت اور ہجر کے تجربات کو انتہائی گہرائی سے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
“ترا فراق تو رزقِ حلال ہے مجھ کو
یہ پھل پرائے شجر سے اتارا تھوڑی ہے”
یہاں شاعر نے محبت کو حلال رزق سے تشبیہ دے کر ایک گہری معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
ان کے اشعار میں وقت اور زندگی کی عارضی حیثیت کو نمایاں کیا گیا ہے:
“یہ لمحہ رائگاں گزرے تو ساری عمر کا روگ
نہ رائگاں ہو تو رسوائی عمر بھر کی ہے”
یہ شعر زندگی کی نزاکت اور لمحوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
ان کی شاعری میں انسانی نفسیات اور جذبات کی پیچیدگی کو نہایت خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے:
“جھوٹوں کے بہت کار محبت میں مزے ہیں
میں سچ ہوں جبھی مجھ کو رعایت نہیں ملتی”
یہ شعر انسانی رویوں کی حقیقت اور سچائی کے ساتھ جینے کی مشکلات کو بیان کرتا ہے۔
ان کے اشعار میں فرد کے دکھوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی مسائل کی جھلک بھی ملتی ہے مثلاً:
“آو مل کے دعائیں مانگیں اپنے کھیت اجڑنے کی
اب کے گھر گھر آگ بٹے گی فصل اگر تیار ہوئی”
اس شعر میں شاعر سماجی ناہمواری اور انسانیت کے المیے کو بیان کرتا ہے۔
جمال احسانی کی شاعری میں جدیدیت کے عناصر واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ وہ روایتی موضوعات کو نئے انداز میں پیش کرتے ہیں، جو قاری کو ایک منفرد تجربہ فراہم کرتے ہیں۔
ان کی زبان سادہ مگر دلکش ہے، اور الفاظ کا چناؤ جذبات کو مؤثر انداز میں پیش کرتا ہے مثلاً:
“کتنی گنجائشیں اس آنکھ نے رکھی ہیں جمال
ہجر کی آس میں بھی وصل کے امکان میں بھی”
ان کے اشعار میں فلسفیانہ گہرائی بھی نمایاں ہے، جو قاری کو زندگی اور اس کے معنی پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے:
“یہ کائنات ورنہ کبھی کی تمام تھی
دو چار لوگ تھے کہ جنہوں نے بنائی بات”
جمال احسانی کے اشعار میں تشبیہات اور استعارے نہایت خوبصورتی سے استعمال کیے گئے ہیں، جو ان کی شاعری کو جاندار اور دلکش بناتے ہیں:
“پانی نہیں دینا مرے یادوں کے شجر کو
یہ کام مرے بھولنے والے نہیں کرنا’
ان کی شاعری اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ ان کے اشعار زندگی کے تجربات، انسانی جذبات، اور فلسفیانہ خیالات کو ایک ایسے انداز میں پیش کرتے ہیں جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف اردو غزل کی روایت کو آگے بڑھاتی ہے بلکہ اسے ایک نئی جہت بھی فراہم کرتی ہے۔ ان کے اشعار کی گہرائی اور جدت انہیں ہمیشہ یادگار بنائے رکھے گی۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے جمال احسانی کے 100 اشعار پیش خدمت ہیں۔
*
تیری یاد اور تیرے دھیان میں گزری ہے
ساری زندگی ایک مکان میں گزری ہے
اُس رستے میں پیچھے سے اتنی آوزیں آئیں جمال
ایک جگہ تو گھوم کے رہ گئی ایڑی سیدھے پاوں کی
یاد کرنے کے سِوا اب کر بھی کیا سکتے ہیں ہم
بھول جانے میں تجھے ناکام ہو جانے کے بعد
کوئی ہو بھی ذرا چاہنے والا تیرا
راہ چلتوں سے رقابت نہیں کی جا سکتی
ہر رنگ جنوں بھرنے والو شب بیداری کرنے والو
ہے عشق وہ مزدوری جس میں محنت بھی وصول نہیں ہوتی
جو آسماں پہ ستارے دکھائی دیتے ہیں
یہ سارے پھول ہیں تیرے یہ زخم سب میرے
کمال اس نے کیا اور میں نے حد کر دی
کہ خود بدل گیا اس کی نظر بدلنے تک
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
اک تیرے تغافل کو خدا رکھے وگرنہ
دنیا میں خسارے ہی خسارے ہیں کم و بیش
کتنی گنجائشیں اس آنکھ نے رکھی ہیں جمال
ہجر کی آس میں بھی وصل کے امکان میں بھی
اس کی نظر بدلنے سے پہلے کی بات ہے
میں آسمان پر تھا ستارہ زمین پر
عجب ہے تو کہ تجھے ہجر بھی گراں گزرا
اور ایک ہم کہ ترا وصل بھی گوارہ کیا
جہانِ اجر و سزا میں بجز دل آزاری
میں سوچتا نہیں کوئی گناہ کرتے ہوئے
گزشتہ عشق کے ہر دکھ سے ماسوا ہے یہ دکھ
تجھے بھلا دیا میں نے یہ کیا کیا میں نے
پوچھا تھا چارہ ساز نے عمر مرض ہے کیا
تیماردار بولے کہ بچپن سے عشق ہے
اس کائناتِ خواہش و امکاں کے اس طرف
ایک منظر ہے اور وہ منظر خراب ہے
جھوٹوں کے بہت کار محبت میں مزے ہیں
میں سچ ہوں جبھی مجھ کو رعایت نہیں ملتی
ہر عہدہ ہوا پیش مگر عشق میں ہم نے
جز دربدری کوئی بھی منصب نہیں رکھا
نہ میں ہی کھلتا ہوں تجھ پر نہ تو عیاں مجھ پر
ترے سوا ترے اقرار سے ادھر کیا ہے
ذرا اس کرب کا اندازہ کیجئے
میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں
بڑھا کے اس سے رہ و رسم اب یہ سوچتے ہیں
وہی بہت تھا جو رشتہ دعا سلام کا تھا
مچل گیا تھا یہ دل دیکھ کر اسے سر راہ
سو میں بھی آگیا ہوں باتوں میں اس کمینے کی
ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں
پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا
ترا فراق تو رزقِ حلال ہے مجھ کو
یہ پھل پرائے شجر سے اتارا تھوڑی ہے
رخصت ہوا ہے دل سے تمہارا خیال بھی
اس گھر سے آج آخری مہمان بھی گیا
سچا اگر ہو عشق تو رہتی ہے ساتھ ساتھ
اک فکر ہجر و وصل کے آزار سے الگ
میری آنکھیں ہیں اور دیوں کی قطار
تیرا وعدہ ہے اور لمبی رات
یہ اب کھلا ہے کہ ان میں میرے نصیب کی دوریاں چپھی تھیں
میں اس کے ہاتھوں کی جن لکیروں کو مدتوں چومتا رہا ہوں
ترتیب دینا ہوں گی پھر اپنی صفیں مجھے
دشمن سے جا ملا جو نمائندہ تھا میرا
میں کیا مرے ہجر و وصل کیا ہیں
اس شخص کا ہی دیا ہے سب کچھ
دشت سے گزرا تو دریا پر کُھلا
کوئی دریا سے بھی بڑھ کر اور ہے
اس کے ملنے ہی سے پہلے دل میں کیوں
اس کے کھو جانے کا ڈر موجود ہے
رقیبوں پر عنایت بر سربزم
بہت خاطر ہماری ہو رہی ہے
جو عشق کرتا ہے چلتی ہوا سے لڑتا ہے
یہ جھگڑا صرف ہمارا تمہارا تھوڑی ہے
خوش وہ ہے جس کے واسطے دنیا سراب ہے
اس کی خوشی بھی کیا جو میسر سے خوش ہوا
کچھ اور وسعتیں درکار ہیں محبت کو
وصال و ہجر پہ دارومدار مشکل ہے
میرے ہم مکتبوں کو علم نہیں
وصل اک مشق ہے جدائی کی
تنہائی سی تنہائی تھی دریا کے کنارے
اس رات میرا عکس بھی پانی میں نہیں تھا
سارے مریض اپنا مرض بھولنے لگے
اس کے حنائی ہاتھوں میں گلدستہ دیکھ کر
ان دنوں عشق سے معطل ہوں
نصف تنخواہ پر گزارہ ہے
دوچار قدم دور تھا دیدار سے تیرے
جس وقت کہ کنڈی تیرے درباں نے لگائی
کسی کے عشق سے کوئی سبق نہیں لیتا
یہ آگ وہ ہے کہ سب اس میں جل کے دیکھتے ہیں
دنیا پسند آنے لگی دل کو اب بہت
سمجھو کہ اب یہ باغ بھی مرجھانے والا ہے
وہ رویا تھا کہ ایام عزا میں رونا نعمت ہے
کوئی میرے بچھڑ جانے کا تھوڑی غم کیا اس نے
جس انا پر ہے تجھے اتنا گھمنڈ
وہ تو تجھ سے بھی بڑی ہے مجھ میں
یہ کائنات ورنہ کبھی کی تمام تھی
دو چار لوگ تھے کہ جنہوں نے بنائی بات
اس کے نزدیک پہنچ کر مجھے معلوم ہوا
وہ کسی دوسرے دریا کا کنارہ تھا کوئی
ایک بس تیرے نہ ہونے سے جہانِ خاک میں
بے پناہ افسردگی ہے بے کنار افسوس ہے
پانی نہیں دینا مرے یادوں کے شجر کو
یہ کام مرے بھولنے والے نہیں کرنا
بچھڑتے وقت ڈھلکتا نہ گر ان آنکھوں سے
اس ایک اشک کا کیا کیا ملال رہ جاتا
کشتی سے یہ کس کا عکس اتر آیا
ماہی گیر کے ہاتھوں میں پتوار جلے
آنسو بہتے ہیں اور دل یہ سوچ کے ڈرتا ہے
آنکھ کہیں کوئی بات نہ کہہ دے اس روانی میں
جتنے چہرے ہیں وہ مٹی کے بنائے ہوئے ہیں
جتنی آنکھیں ہیں وہ پانی کے سوا کچھ بھی نہیں
بات بگڑنے پر آئے تو ایسے بگڑ جاتی ہے
بعض اوقات تو ماں کی دعا بھی کام نہیں آتی
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
ہماری روح کے صحرا سے کون گزرے گا
کسے بتائیں گئی بارشوں میں کیا تھے ہم
آو مل کے دعائیں مانگیں اپنے کھیت اجڑنے کی
اب کے گھر گھر آگ بٹے گی فصل اگر تیار ہوئی
کاش میں تجھ پہ ریاضی کے سوالوں کی طرح
خود کو تقسیم کروں کچھ بھی نہ حاصل آئے
آنکھوں میں اشک نام کی شے تک نہیں رہی
جھیلیں بھی اب ترستی ہیں پانی کے واسطے
ہونٹ سے ہونٹ مل گئے دل سے دل نہ ملا
یہ بات بھول جاو اگر گھر چلانا ہے
جواز رکھتا ہے ہر ایک اپنے ہونے کا
یہاں پہ جو ہے کسی سلسلے میں آیا ہے
نہ وہ حسین نہ میں خوب رو مگر اک ساتھ
جو ہمیں دیکھ کے وہ دیکھتا ہی رہ جائے
عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے
گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گزر پر رکھا
بچھڑا تو اک جہان تعلق اجڑ گیا
جس جس سے رابطے تھے اسی کے سبب سے تھے
ہم نے پڑھی ہیں صاف صاف ہم نے سنی ہیں غور سے
نظریں کہ جو اٹھیں نہیں باتیں کہ جو ہوئیں نہیں
اُسی مقام پہ کل مجھ کو دیکھ کر تنہا
بہت اداس ہوئے پھول بیچنے والے
متاعِ عمر ہوئی خرچ اور بتاتے ہوئے
نہ وہ دریچہ نہ وہ بام کوئی یاد نہ تھا
اعتبار اٹھ جاتا آپس کا جمال
لوگ اگر اُس کا بچھڑنا دیکھتے
جو میرے ذکر پہ اب قہقہے لگاتا ہے
بچھڑتے وقت کوئی حال دیکھتا اس کا
ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا
اس آنکھ میں اک رنگ ہے اور رنگ ندامت
اک ہار ہے اور ماننے والے کےلیے ہے
شجر بھی کاٹنے ہیں آنگنوں سے
پرندوں کا بھی دل رکھنا پڑے گا
کوئی تو معتبر گواہ رات کا
کسی کے نام کا دِیا جلاو بھی
سحر تلک کوئی آیا نہ ساتھ کے گھر میں
برآمدے میں کوئی رات بھر ٹہلتا رہا
اب اور کوئی کفیت ہو عشق میں
وصال و ہجر سے میں تنگ آچکا
وہ آنکھ چپ ہے ہمیشہ سے پھر بھی لگتا ہے
کہ جیسے اب سخن آغاز کرنے والی ہے
عجب در تھا نہ کھلنے پر بھی اس کا فیض جاری تھا
عجب خیرات تھی جس کو کوئی سائل نہیں سمجھا
کسی کے ہونے نہ ہونے کے بارے میں اکثر
اکیلے پن میں بڑے دھیان جایا کرتے ہیں
خوش ہے بہت وہ اپنے نئے ہم سفر کے ساتھ
اتنی ذرا سی بات پہ کیوں رو رہا ہوں میں
یہی سوچتا گھر سے دور آگیا
کوئی روک لے گا ٹھہر جاوں گا
یہ لمحہ رائگاں گزرے تو ساری عمر کا روگ
نہ رائگاں ہو تو رسوائی عمر بھر کی ہے
تونے جب دل توڑ کر ہی رکھ دیا
پھر یہ سکہ کِن دکانوں پر چلے
ایک کلی مہکائے ہوئے تھی پورا باغ کا باغ
اُس کی گلی کے سارے لوگ تھے اچھی عادت والے
اس کی خواہش ہے کہ جلدی بھول جانا چاہیے
بھول جانے کے لیے جس کو زمانہ چاہیے
پوچھنا چاہتا ہوں میں ان آنکھوں سے جمال
کس کو آباد کیا ہے مجھے بے گھر کر کے
ہم فقیروں سے دوستی کرکے
کر شمار اپنا بادشاہوں میں
آنسو نہیں رہے ہیں تو آنکھوں سے فائدہ
پانی نہیں تو جھیل کی گہرائی کیا کرے
جمال اس وقت کوئی مجھ سے بچھڑ رہا تھا
زمین اور آسماں جب ایک ہو رہے تھے
یہ دیکھ تجھ کو فراموش کرکے زندہ ہیں
نہ پوچھ بوجھ یہ کتنے عذاب سے اٹھا
غیر یقینی صورتِ حال میں ملنے والے
بچھڑ گئے ہیں رستوں کی یکجائی پر
حل ہوگیا خون میں وہ آخر
جو وہم جڑیں پکڑ رہا تھا
نیا شریکِ سفر چاہتیں جتاتا رہا
جمال پچھلی محبت کی یاد آتی رہی
اس قدر عیش محبت پہ نہ ہو خوش کہ تجھے
دوسرے عشق میں نقصان اٹھانا پڑ جائے
میں ابھی پہلے خسارے سے نہیں نکلا ہوں
پھر بھی تیار ہے دل دوسری نادانی پر
مقصود صرف ڈھونڈنا کب تھا تجھے سو میں
جس سمت تو نہیں تھا اُدھر بھی نکل گیا
مجھے بدلتے ہوئے وقت نے جو بخشے تھے
وہ زخم رسنے لگے تیری مسکراہٹ سے
لکھنی مجھے پڑ جائے جو تقدیرِ زمانہ
شاید میں تمہارے لبِ نوخیز سے لکھوں
ہار جانے پہ لوگ کہتے ہیں
کون جھگڑا کرے مقدر سے
خموش ہوں تو مجھے اتنا کم جواز نہ جان
مرے بیان باہر بھی ہیں سبب میرے
تجھ سے اکتا جانے کی ایک ساعت بھی
تیرے عشق ہی کے دوران میں گزری ہے