تحریر: ایم ایس اطہر قریشی
ناظرین پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جو ادارہ ملک کی معیشت کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے
کچھ عرصے بعد اس ادارے کو اس نہج پہ پہنچا دیا جاتا ہے کہ ادارے کی نجکاری کرنے کی ضرورت پیش پڑ جاتی ہے
سب سے پہلے تو میں اپ کو یہ بتا دوں کہ یہ نجکاری ہوتی کیا ہے
نجکاری کیا ہوتی ہے کہ جب کوئی ادارہ کوئی ارگنائزیشن یا گورنمنٹ ہو یا پرائیویٹ ہو اس کو منافع بخش انداز میں نہیں چلا پا رہی ہوتی ہے تو وہ کسی اور ادارے کو، ملک کو یا کسی اور ارگنائزیشن کو اس کے شیئر فروخت کر دیے جاتے ہیں
سب سے پہلے یہاں میں ذکر کروں گا پاکستان اسٹیل مل کا جو جس وقت معزز وجود میں ائی تو پاکستان کو اس نے کروڑوں نہیں اربوں روپے کما کر دیے اور عوام اور پاکستان کی خوشحالی میں اہم کردار ادا کیا اس کے بعد اس کا ہمارے ملک اور عوام دشمن حکومتی اداروں نے جو حشر کیا وہ اپ کے سامنے ہے
اس کے بعد اب موجودہ دور کے اندر جو شوشہ چھوڑا گیا ہے وہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی مسلسل خسارے میں جانے کی وجہ سے اس کو فروخت کیا جا رہا ہے نجکاری یعنی گورنمنٹ کا ٹائٹل ہٹا کر اس کو نجی نجی اداروں کے سپر کرنے کا اونے پونے میں انتظام کیا جا رہا ہے
پی ائی اے ایک ایسا ادارہ تھا
جس نے اپنے ابتدائی دور میں اس وقت اج کے دور کی چند اہم پاپولر اور کامیاب ترین کی چند مشہور ترین ایئر لائنز جاپان ایر لائن جاپان ۔ سنگاپور ایئر لائن سنگاپور۔ ایمریٹس ایئر لائن یو اے ای اور سری لنکا ایئر لائن اور جنم دیا خود ان تمام ایئر لائنز کی مدر ایئر لائن کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے اور یہ تمام ایئر لائنز اپنے ملک کو بہترین منافہ کما کر دے رہی ہیں
ہمارے ملک اور ہمارے حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن جس زبوحالی کا شکار ہے وہ سب اپ کے سامنے ہے۔
یہاں پر میں ایک تذکرہ تن ذکر کرتا چلوں کہ پاکستان کے حالات کی وجہ سے بہت ساری ایئر لائنز نے کراچی ایئرپورٹ کو اپنا حب بنایا ہوا تھا کراچی کا رخ کرنا بند کر دیا ہے
جس کی وجہ سے بھی ہمارے ملک کو بہت بڑے زر مبادلے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
قارین اب ہم نے دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی نجکاری جس وجہ سے کی جا رہی ہے وہ پی ائی اے ایئر لائن کا مسلسل خسارے یعنی نقصان میں جانا ہے اور اس کی اس وجہ سے پاکستان کی حکومت کے اوپر ایک بہت بڑا مالی بوجھ پڑھ رہا ہے اور اس بوجھ کو پاکستان کے عوام کی دی ہوئی ٹیکس کی رقم سے پورا کیا جا رہا ہے
اور حکومت کو مسلسل نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے
ناظرین اب ہم بات کریں گے کہ پھر پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن ہی کیوں حکومت کے تو بہت سارے ادارے ایسے ہیں کہ جو اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر پا رہے اور ایک بہت بڑا بجٹ ان پر سالانہ خرچ کیا جاتا ہے جو عوام سے ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جاتا ہے
پی ائی اے کے خسارے سے موازنہ کیا جائے تو ہماری اعلی عدلیہ کا جو حشر اس وقت ہے کہ دنیا کے اندر انصاف کا اگر پرچار کرنے والے ملکوں کی ادلیہ سے موازنہ کیا جائے تو دو سو ممالک میں نیچے سے پانچویں چھٹے نمبر پر اتی ہے
سلو توں کی بنیاد پہ دیکھا جائے تو دنیا کے اندر جو 200 ممالک میں اس میں پاکستان کا نام پانچویں یا چوتھے نمبر پر اتا ہے
اس ادارے کے متعلق بھی سوچنا پڑے گا
اب ا جائیے ہماری لا اینڈ ارڈر کنٹرول کرنے والے ادارے ان کے متعلق اگر لب کشائی کی تو پھر اپ سمجھ لیں کہ اپ کا حشر کیا ہونا ہے
عوام کو سکون اور تحفظ تو فراہم کر نہیں سکتے ہاں راج کر سکتے ہیں عوام کے اوپر ان کا بھی حشر تحفظ فراہم کرنے میں دنیا کے اندر نیچے سے دوسرے تیسرے نمبر پہ اتا ہے اور بجٹ استعمال کرنے میں اوپر سے
آجائیے اب ہم بات کرتے ہیں پاکستان کے سب سے اہم ترین ادارے جس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ پاکستان کی عوام کے مستقبل کو بہتر بنائے پاکستان کی عوام کو ہر طرح سے تحفظ فراہم کرے جوانوں کو روزگار فراہم کرنے عوام کے لیے بہترین ایجوکیشن اور بہترین میڈیکل سہولت فراہم کرنے قانون سازی کرنے
پاکستان کی اکنامی کو مضبوط کرنے اور سرحدوں کی حفاظت سے لے کے اندرونی خلفشار کو روکنے اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کو بہتر بنانا ہے
لیکن اپ عوام کیا سمجھتے ہیں کہ یہ تمام تر ذمہ داری کس کی ہے جی ہاں یقینا یہ ذمہ داریاں ہمارے ملک کی اعلی ترین پارلیمنٹس کی ہیں چاہے وہ صوبائی سطح پر ہوں چاہے وہ قومی سطح پر ہوں
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے اس کی پارلیمنٹ نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کیا کردار ادا کیا اور پاکستان کی عوام نے اربوں نے کھربوں کے حساب سے سالانہ ٹیکس ادا کر کے پارلیمنٹ کے وقار کو اور پارلیمنٹ کے ممبران کو جو سہولتیں فراہم کی ہیں اس کے عوض میں عوام کو کیا ملا
بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جب وہ بیرون ملک کہیں بھی سفر کرتے ہیں پاکستانی پاسپورٹ کو دیکھ کر انہیں ایک علیحدہ لائن میں کھڑا کر دیا جاتا ہے یہ ہے ہمارے عوام کا وقار دنیا کے اندر جو اپنی حکومت کے ممبران اور پارلیمنٹ کا وقار بلند کرنے کے لیے اربوں روپے سالانہ پارلیمنٹ پر خرچ کرتے ہیں
اور ممبر پارلیمنٹ چاہے وہ سینٹ کے ہوں قومی اسمبلی کے ہوں چاہے صوباء اسمبلی کے ہیں وہ اربوں روپے سالانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں اور اربوں ہی روپے سالانہ کی ان کو مختلف چیزوں میں سبسڈی دی جاتی ہے جس میں بجلی گیس پیٹرول اور دیگر سہولیات موجود ہیں
جب پی ائی اے مسلسل خسارے میں جا رہا ہے اور اس کا بوجھ عوام اٹھا رہی ہے اس کے نجکاری کی جا رہی ہے تو کیوں نہ ہم اس ادارے کو کہ جس کی وجہ سے پورا پاکستان خسارے میں جا رہا ہے اور پاکستان کے 24 کروڑ عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں اور سیکڑوں لوگ خودکشیاں کر چکے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں اور غریب کے اوپر ظلم ڈائے جا رہے ہیں
انصاف معاشرے سے ناپید ہو چکا ہے
محافظ خود ڈاکو بنے ہوئے ہیں
تو کیوں نہ اب ہم عوام مل کر پی ائی اے کے بجائے پارلیمان کی نچکاری کی جائے اور اس ادارے کو جاپان جیسے انصاف پسند ملک یا اور کسی ترقی یافتہ ملک کے حوالے کر دیا جائے جو اپنے ملک کی عوام کو تعلیم۔ انصاف۔ میڈیکل۔اور دیگر ضروریات زندگی بنیادی ضرورتیں بہترین انداز میں فراہم کرتی ہیں
میں ایک محب وطن پاکستانی اپنی عوام سے گزارش کرتا ہوں کہ ائیے ہم سب مل کے پارلیمنٹ کی نجکاری کرنے کا انتظام کریں
نکیحکومت کو اپنے ملکی ایئر لائن کی نجکاری کرنے کی اجازت دی جائے۔
جس طرح پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے مختلف ایسٹس فروخت کیے جا رہے ہیں تو اسی طرح ممبران پارلیمنٹ کے تمام ایسٹ ضبط کر کے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیے جائیں ۔
خاص طور سے ججوں اور تمام سرکاری اداروں کے بڑے ذمہ دار افسران کی تمام سبسڈی اور سہولتیں فوری طور پر واپس لے کر عوام میں تقسیم کی جائیں۔
اور پاکستان کے لیے خلفائے راشدین کے زمانے کا طرز حکومت قائم کیا جائے جس میں خلیفۃ المسلمین اپنا اگر ذاتی کام کرتا تھا تو وہ چراغ جو اس نے سرکار کے پیسے سے اپنے گھر میں جلایا ہوا تھا وہ بند کر دیا کرتا تھا