لاشوں کی متلاشی قیادت

لاشوں کی متلاشی قیادت

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ
سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لئے رچائی گئی نام نہاد احتجاجی تحریک کی فائنل کال کے حوالہ سے 26نومبرکو شائع ہونے والے اپنے کالم ” فائنل کال کا نتیجہ صِفر” میں اعداد و شمار کے ساتھ فائنل کال کی ناکامی کا پیشگی تذکرہ کردیا تھا اور وقت نے ثابت کیا کہ فائنل کال کا نتیجہ واقعی صفر ہی نکلا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد بندہ ناچیز کو عقل سے پیدل مخلوق کی جانب سے گالی گلوچ اور لعن طعن کے تحائف موصول ہوئے۔ 26اور 27کی درمیانی شب ڈی چوک و ملحقہ علاقوں میں بھل صفائی مہم کا آغاز کردیا گیا جس میں مذہبی ٹچ، اور کارکنوں سے عمران خان کو جیل سے نکالے بغیر گھروں کو نہ لوٹنے کے عہد و پیمان لینے والی نام نہاد روحانی، مذہبی و سیاسی خاتون بشری بی بی المعروف پنکی پیرنی، بھڑکیں مارنے اور وکٹ کی دونوں جانب کھیلنے والے گنڈا پور کیساتھ میدان کارزارسے ایسے چھومنتر ہوگئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوجاتے ہیں۔27نومبر کی صبح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عقل سے پیدل پیروکار اپنی لیڈر شپ کی اس بزدلی پر سوال اٹھاتے مگر حسب معمول ایسا ہرگز نہ ہوسکا۔ پی ٹی آئی کی خوش نصیبی ہے ایسے پیروکار اکثریت میں ہیں جو اپنی پارٹی لیڈرشپ کے خلاف بات سننا گوراہ ہی نہیں کرتے۔ جو لیڈر شپ نے بیانیہ جاری کردیا اس پر آنکھیں اور عقل کے دروازے بند کرکے آمین پکار اٹھتے ہیں۔
یہاں سوال فائنل کال کی ناکامی پر اٹھنے چاہیے تھے مگر حسب معمول پارٹی لیڈرشپ نے لاشوں کا نیا بیانیہ جاری کردیا۔ کوئی پچاس تو کوئی ایک صد لاشیں گنوانا شروع ہوا، کسی نے لاشوں کی ڈبل سنچری بنا ڈالی تو کسی نے ٹرپل سنچری بھی کراس کر دی۔ پارٹی لیڈرشپ کی اکثریت نے انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی قوم کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ شبانہ روز میڈیا ٹاکس میں گھٹے جوڑ کرلاشوں کی سنچریاں مکمل کرنے کی افسانوی کہانیاں سناتے ہوئے اک لمحے کے لئے خیال نہیں آیا کہ وہ مسلمان ہیں اور دین اسلام میں جھوٹ کو گناہ کبیرہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ناں کے جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے، اک جھوٹ کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ بالآخر پارٹی کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے پارٹی لیڈرشپ اور پارٹی کارکنان کی جانب سے لاشوں کی سنچریاں مکمل کرنے والی رام کہانیوں پر یہ کہہ کر پانی پھیر دیا کہ فائنل احتجاجی کال کے دوران صرف بارہ افراد کی ہلاکت ہوئی۔ چلیں کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ لیکن جب تک سچ معلوم ہوتا ہے جھوٹ اور پروپیگنڈا اپنا کام کرچکا ہوتا ہے۔ اور یہ بات بھی پختہ یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ پی ٹی آئی ان بارہ لاشوں کی تفصیل بھی عوام الناس کے سامنے کبھی نہیں رکھ پائے گی۔
ہفتہ سے زائد عرصہ ہونے کو ہے مگر پی ٹی آئی لیڈرشپ کی جانب سے نام نہاد شہداکے قتل کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لئے کسی قسم کے اقدامات دیکھنے کو نہیں ملے۔ ٹرپل سنچری سے یکدم بارہ افراد کی ہلاکت کے اعلان کے بعد سوشل میڈیا پر پارٹی سے محبت کرنے والوں نے بیرسٹر گوہر خان پر لعن طعن اورگالی گلوچ کی بمباری شروع کردی ہے۔ ہماری سیاسی و مذہبی جماعتیں لاشوں کی اتنی دل دادہ کیوں ہیں؟ ماضی قریب ہی میں دیکھ لیا جائے تو عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے ماڈل ٹاؤن لاشوں پر کیا کچھ نہیں کیا۔ مگر پی ٹی آئی نے حکومت میں آکر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نامزد ملزمان کو چُن چُن کر اعلی ترین عہدوں پر ترقیاں کیوں دیں؟ اب پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے لیڈران کی جانب سے ماڈل ٹاؤن لاشوں کا تذکرہ سننے دیکھنے کو کیوں نہیں ملتا؟ فیض آباددھرنا اول اور فیض آباد دھرنا دوئم میں سینکڑوں لاشوں کے دعوے کئے گئے مگر آج تک فوت شدگان کی تفصیلات منظر عام پر نہ آسکیں۔
کہنے کو تو پاکستان اک ریاست ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں سیاست اور مذہب سے منسوب من گھڑت واقعات پر آگ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ پارٹی لیڈرشپ لاشوں پر شوروغوغا کرتی نظر ضرور آئے گی۔ خدانخواستہ واقعی اگر کوئی لاش گرتی ہے تو آپ لیڈران کو جنازوں میں شامل ہوتا نہیں دیکھیں گے۔ بیرسٹر گوہر خان کے بیان کے بعدچند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کہ: پی ٹی آئی لیڈران جنہوں نے لاشوں کی سنچریاں مکمل کرلی تھیں کیا وہ میڈیا کے سامنے سرعام معافی مانگیں گے؟ دو سو تین سو چار سو حتی کہ بارہ لاشیں گئیں کہاں؟پی ٹی آئی لیڈرشپ کو خیبر پختونخواہ میں ایک سو تیس سے زائد لاشیں نظر کیوں نہیں آتیں؟ درج بالا سوالات کا سیدھا اور صاف ساجواب یہی ہے کہ بے شرمی کے ساتھ جھوٹ بولنے والے نہ ہی معافی مانگیں گے اور نہ ہی انکو پاراچنار میں پڑی لاشیں نظر آئیں گی۔ میرے خیال میں اب پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کو سمجھ آنا شروع ہوچکی ہوگی کہ موجودہ لیڈرشپ بانی کو کال کوٹھری سے نکالنے کی بجائے سستی شہرت اور لاشوں کی متلاشی ہے۔ لہذا مستقل قریب میں وہ پنکی پیرنی اورگنڈا پور ایسی لیڈرشپ کے فریب میں نہیں آئیں گے۔

اپنا تبصرہ لکھیں