*
اقبالیات
*
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی*
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی مثنوی “اسرار خودی” میں شامل فارسی نظم “تمہید” ایک فلسفیانہ اور تخلیقی اظہار پر مبنی بہترین شاعری ہے جس میں اقبال نے خودی کی اہمیت، انسان کی تخلیقی صلاحیتوں، اور کائنات میں اس کے مقام کو اجاگر کیا ہے۔ اس نظم میں علامہ اقبال نے انسانی خودی کو تخلیقِ کائنات کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ خودی کے شعور سے انسان دنیا کو ایک نئی روشنی فراہم کر سکتا ہے۔
نظم کا آغاز اس بات سے ہوتا ہے کہ قدرت میں کوئی چیز بے کار یا غیر اہم نہیں۔ علامہ اقبال کہتے ہیں کہ اگر کوئی درخت منبر بننے کے قابل نہیں تو وہ درخت مجرموں کو سولی کے لیے “تختہ دار” کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اقبال اپنے اس تصور میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کو کارآمد بنانے کی تلقین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اقبال کے نزدیک آنسوؤں سے زمین پر سبزہ اگتا ہے اور فطرت (یعنی باغبان) ان کی شاعری کے اثر کو آزماتی ہے۔ وہ اپنی شاعری کو ایسی طاقتور شمشیر سے تشبیہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں جو ظلمت کو ختم کر سکتی ہے۔ ان کے آنسو کائنات میں تخلیقی عمل کی بنیاد ہیں، جو زمین کے تار و پود میں زندگی کا رنگ بھرتے ہیں۔
نظم میں خودی کی عظمت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اقبال کے مطابق خودی ایک ایسی طاقت ہے جو انسان کو کائنات کے تمام رازوں سے روشناس کراتی ہے۔ وہ اپنی خاک کو جمشید کے جام سے زیادہ روشن قرار دیتے ہیں، جو خودی کے شعور کی روشنی کو ظاہر کرتا ہے۔
نظم میں اقبال نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کائنات کے تخلیقی عمل سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے مطابق انسان کی فکر وہ ہرن (غزال) ہے جس کا شکار کیا جاسکتا ہے جو ابھی پیدا نہیں ہوئی۔
اقبال کہتے ہیں کہ ان کے گریبان میں سیکڑوں صبحیں چھپی ہوئی ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ انسان میں مستقبل کی تخلیق کی صلاحیت موجود ہے۔ یہ اشارہ انسانی خودی کے وقت سے ماورا ہونے کی طاقت کی طرف ہے۔
اقبال نے اپنی نظم میں کثرت سے تشبیہات اور استعارے استعمال کیے ہیں، جیسے “آنسوؤں سے سبزہ اگنا” یا “خاک کا جمشید کے جام سے زیادہ روشن ہونا۔” یہ تشبیہات ان کے فلسفیانہ خیالات کو شعری حسن عطا کرتی ہیں۔
نظم میں تصوف کے عناصر واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ خودی کا تصور اقبال کے فلسفۂ انسانیت اور تصوف کی بنیاد ہے، جو انسان کو اپنے اندر جھانکنے اور اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے کی ترغیب دیتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں فطرت کا اہم کردار ہے۔ یہاں باغبان اور سبزہ جیسے استعارے فطرت کے تخلیقی عمل کو نمایاں کرتے ہیں۔
اقبال کی یہ نظم ان کے فلسفے اور شاعری کے امتزاج کی بہترین مثال ہے۔ ان کی شاعری نہ صرف جذبات کو بیدار کرتی ہے بلکہ ذہن کو بھی تحریک دیتی ہے۔
نظم میں پیش کیے گئے خیالات آفاقی ہیں، جو ہر دور کے انسان کے لیے رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ اقبال کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنی خودی کو پہچانے اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔
اقبال کی فارسی زبان میں مہارت اور ان کی شاعری کا دلکش انداز قاری کو متاثر کرتا ہے۔ ان کے الفاظ کے انتخاب اور خیالات کی گہرائی نظم کو لازوال بناتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ “تمہید” ایک ایسی نظم ہے جو انسان کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا ادراک کرنے اور خودی کی عظمت کو سمجھنے کی دعوت دیتی ہے۔ اقبال کے خیالات قاری کو ایک نئے زاویے سے کائنات اور اپنی ذات کو دیکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ نظم انسانی خودی کو کائنات کے تخلیقی عمل کا حصہ بنا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور انسان کو زندگی کے ہر لمحے کو بامقصد بنانے کا پیغام دیتی ہے۔