معاف کرنا اور آگے بڑھنا ہے

معاف کرنا اور آگے بڑھنا ہے

اہل سیاست مذاکرات کی باتیں تو بہت کرتے رہتے ہیں ،مگر جب مذاکرت کر نے کی بات آتی ہے تو ادھر اُدھر دیکھنے لگتے ہیں ،جبکہ مذاکرات ہی سیاسی مسائل کے حل اور درپیش بحران کے خاتمے کا واحد راستہ ہے ،پچھلے تین برس سے جاری بحران میں جتنا زور مل بیٹھ کر مسائل کے حل پر دیا گیا‘ کسی اور معاملے پر نہیں دیا گیا، حکومت اور حزبِ اختلاف ایک دوسرے پر ہی ڈالتے چلے آ رہے ہیں، اب جبکہ پی ٹی آئی مذاکرات کیلئے آمادگئی دکھائی ہے تو حکومت کی جانب سے سرد مہری کا تاثر دیا جارہا ہے،یوں ایک بار پھر مذاکرات کے ذریعے سیاسی مسائل کے حل کی خواہش پر اوس پڑ تی دکھائی دیے رہی ہے، اگر یہ صورتحال ایسے ہی برقرار رہی تو سیاسی مسائل‘ جو پہلے ہی شدت اختیار کر تے جارہے ہیں‘ آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔
اگر دیکھا جائے تواس وقت ملک کو ایک نہیں کئی چیلنجز درپیش ہیں۔، ایک طرف سیاسی انتشا ر بڑ ھتا جارہا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی کا عفریت بار بار سر اٹھا رہا ہے، اس دہشت گردی میں جوانوں کی شہادتیں بھی ہو رہی ہیں، اگر ملک میں سیاسی طور پر بے چینی نہیں ہو گی ،کاروبارِ مملکت تمام سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے بخیر و خوبی چل رہا ہوگا تو پھر دہشت گردی کے ایشو سے نبٹنا بھی آسان ہو گا۔ اس مسئلے سے مستقل نجات کے لیے آپریشن کے ساتھ کوئی دوسرا متفقہ طریق کار بھی اختیار کیا جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن ہو سکتے ہیں،لیکن سب سے پہلے سیاسی انتشار کا خاتمہ ڈئیلاگ کے ذریعے بہت ضروری ہے۔
اس حکومت پر لازم ہے کہ مذاکرات کی پیشکش پر سنجیدگی دکھائے ،یہ سیاست اور معیشت کیلئے ہی نہیں ، قیام امن کیلئے بھی انتہائی ضروری ہے ، لیکن یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو گا ، جبکہ مذاکرات کیلئے فضا ساز گار بنائی جائے گی ، کیو نکہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے سازگار فضا ایک بنیادی تقاضا ہے، اس کیلئے دونوں ہی بڑی پارٹیوں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کو اپنے سوشل میڈیا کو فوری طور پر بریک لگانا ہوگی،اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے عطا تارڑ اور طلال چودھری‘ کی دورانِ مذاکرات زباں بندی کر نا ہو گی تو ہی سیاسی ماحول خوشگوار ہو سکتا ہے اور مذکراتی عمل کا میابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے ،سیاسی مسائل ترجیحی بنیادوں پر‘ جلد از جلد اور پُر امن طریقے سے حل ہونے چاہئیں، قومی اتحاد اور سیاسی استحکام کی ضرورت یوں تو ہمیشہ سے ہی رہی ہے، مگر موجودہ حالات میں قومی یکجہتی کی کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
اس میں اہل سیاست کواپنا مثبت کردار ادا کر ناہو گا ، سیاسی انتقام وانتشار کی سیاست کو خیرباد کہہ کر جمہوری اصولوں سے رجوع کر نا ہو گا، ایک دوسرے کو قبول کر نا ہوگا اور ایک دوسرے کو راستہ دینا ہو گا ، اگر ہم ماضی کو ہی کھنگالتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو راستے سے ہٹا نے میں ہی لگے رہیں گے تو یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہو پائیں گے،اگر ہم نے کوئی نئی شروعات کر نی ہے تو پھرماضی کو بھلانا ہی پڑے گا ،ایک دوسرے کو معاف کر کے بات کو آگے بڑھنا ہی پڑے گا ،اس ملک کے حالات بھی معاف کرنے اور مل جل کر آگے بڑھنے کا ہی تقاضا کررہے ہیں۔
اگر ہم نے ماضی کو بھلانے اور آگے بڑھنے کا ارادہ کر ہی لیا ہے تواس کا راستہ باچیت سے ہی نکلے گا ، لیکن بات چیت خلا میں نہیں ہو سکتی‘ اس کیلئے زمین ہموار کرنا پڑتی ہے،یہ اب حکومت اور اپوزیشن کی ذمہ داری ہے کہ بات چیت کو عملی شکل دینے کیلئے مناسب ماحول بنائے، اس کیلئے جس فریق کے ذمہ جو کچھ ہے، وہ خلوص دل سے انجام دیے ،حزبِ اختلاف کو ایسا تاثر رد کرنا ہو گا کہ اس کے سیاسی دبائوکے آگے بے بس ہو کر حکو مت مذاکرات قبول کرنے پر مجبور ہے، حکومت کو بھی چاہئے کہ لیت ولعل سے کام لینے اور مذاکرات کی آفر کو فریقِ مخالف کی کمزوری ثابت کرنے کی کو شش سے گریز کرے ،سیاسی تصادم سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، بلکہ دونوں فریق کا مز یدنقصان ہی ہو گا ۔
اس کا ادراک جتنا جلد کر لیا جائے ،اُتنا ہی سب کیلئے بہتر ہے ، دوسری صورت میں بے اعتمادی بڑھتی چلی جائے گی ،اس مذاکراتی عمل میں بے اعتمادی ہی آڑے آرہی ہے، حکومت کو بے یقینی ہے کہ اس مذاکرات کو بانی تحریک انصاف کسی بھی دن سبوتاژ کر سکتے ہیںاورمذاکراتی کمیٹی کو کسی وقت چارج شیٹ کرسکتے ہیں، دوسری جانب تحریک انصاف کو بھی مکمل یقین نہیں ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں اسے کوئی ریلیف ملے گا، تحریک انصاف قائد تو چاہتے تھے کہ طاقت ور حلقوں سے براہ راست مذاکرات ہوں، مگر مقتدرہ کے مسلسل انکار سے تحریک انصاف کی مایوسی میں اضافہ ہو ا ہے، تحریک انصاف کو اعتبار قائم کرنا ہوگا اور حکومت کو ا عتماد دینا ہو گا ، وگرنہ ہر مذاکرات کانتیجہ صفر جمع صفر ہی نکلے گا۔

اپنا تبصرہ لکھیں