تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ شہزاد یوسفزئی
اکثر ٹی وی چینلز پر آپ نے دیکھا ھوگا کہ کچھ ایسے پروگرام یا شوز نشر ھوتے ہیں جس میں شرکت کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا ٹاسک دیا جاتا ھے جسے بمشکل سے کوئی بھی پارٹیسپینٹ پورا کر پاتا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے کچھ اسی طرح کا حال کوئٹہ کے رہنے والوں کا بھی ہے کہ کس طرح اس سخت سردی کو برداشت کرنا ھے اف تک نہیں کرنا بس اس کو انجوائے کرنا ھے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانا ہے۔ جبکہ کسی بھی مسئلے کا کوئی موثر حل نکالنے کے بجائے اس کا متبادل ڈھونڈنا ہمارا قومی مشغلہ ہے ۔ یا پھر ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چراغ تلے اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چراغ والی مثال اس لیے دی کیونکہ گیس اسی صوبے کی پیداوار ھے زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ باقی آپ خود ہوشیار ہیں سمجھ تو گئے ہونگے۔کوئٹہ چونکہ پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ایک خوبصورت اور تاریخی شہر ہے جو اپنی شدید سردی اور برفباری کے لیے جانا جاتا ہے سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے شہریوں کو ایک عام مگر سنگین مسئلے کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور وہ ہے گیس پریشر میں کمی۔ یہ مسئلہ ہر سال ہزاروں خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے، اور ان کی روزمرہ زندگی بری طرح متاثر کرتا ہے۔سردیوں میں گیس کی طلب میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے، کیونکہ لوگ گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے کے لیے گیس کا استعمال بڑھا دیتے ہیں۔ تاہم، رسد اتنی نہیں ہوتی کہ بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جا سکے
کوئٹہ میں گیس کی سپلائی کا نظام کئی دہائیوں پرانا ہے، جو جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ پائپ لائنز میں لیکیج اور دیگر مسائل بھی پریشر میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔
جس میں گیس کے غیر قانونی کنکشن اور چوری بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جو پریشر میں کمی کا سبب بنتا ہے۔
چونکہ گیس کا زیادہ حصہ شمالی علاقوں اور صنعتی مقامات کو فراہم کیا جاتا ہے، اس لیے بلوچستان کے کئی علاقوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔
گیس پریشر میں کمی کے باعث کھانا پکانے اور پانی گرم کرنے کے لیے متبادل ذرائع استعمال کرنے پڑتے ہیں، جو کہ نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ وقت طلب بھی ہیں۔
گیس کی کمی کے باعث لوگ لکڑی اور کوئلہ جلاتے ہیں، جس سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔
سردی میں گیس کی عدم دستیابی سے لوگ ٹھٹھرتی سردی کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیماریاں پھیلتی ہیں۔گیس کی کمی سے گھریلو اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ لوگوں کو مہنگے متبادل ایندھن خریدنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ گیس سپلائی کے نظام کو جدید بنایا جائے، تاکہ طلب اور رسد کے فرق کو کم کیا جا سکے۔
حکومت کوئٹہ کے عوام کو متبادل توانائی کے ذرائع جیسے سولر ہیٹر اور بایو گیس کے استعمال کی طرف راغب کرے ۔
حکومت کو سردیوں میں بلوچستان کے لیے گیس کی مناسب مقدار مختص کرنی چاہیے تاکہ اس خطے کے عوام مشکلات سے بچ سکیں چونکہ کوئٹہ میں سردیوں کے دوران گیس پریشر کی کمی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جو فوری توجہ اور حکومتی اقدامات کا متقاضی ہے۔ اس ضمن میں میری عاجزانہ تجویز یہ بھی ہے چونکہ چیف منسٹر بلوچستان میر سرفراز بگٹی ایک ایماندار اور قابل انسان ہیں جس طرح ان کے سربراہی میں صوبہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے اس کی نظیر نہیں ملتی انہوں نے صوبہ کے دیگر مسائل کو حل کرنے کو سنجیدہ لیا ہوا ہے اور ان مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں ان کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہو گی اسی طرح اگر وہ گیس پریشر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی اپنائے تو نہ صرف عوام کی مشکلات کم ہوں گی بلکہ یہ بلوچستان کے عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال کرے گا۔