آج اس ریکارڈ کا 40ویں دن تھا جو اکتوبر کے آخری ہفتے زمبابوے نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ افریقن کوالیفائرز میں گیمبیا کے خلاف 344 رنز بنا کر قائم کیا۔ یہ تاحال ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل کی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ ہے۔
ابھی اس توانا ریکارڈ کی عمر چھ ہفتے بھی نہیں ہوئی تھی کہ اسی ٹیم نے پاکستان کے خلاف دوسرے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں صرف 57 رنز بنا کر اپنی تاریخ کا پست ترین مجموعہ ریکارڈ کیا ہے۔
کچھ سال پہلے جب کرکٹ کے فروغ کو آئی سی سی نے فیفا کے زرخیز اذہان کی خدمات حاصل کی تو رینکنگ کی اوپری چند ٹیموں کی بجائے، ٹی ٹوئنٹی میں، دنیا بھر کے میچز کو انٹرنیشنل سٹیٹس دیا گیا۔ اس دُور رس فیصلے نے کرکٹ میں مسابقت کا دائرہ وسیع تر کیا۔
یہ اسی پالیسی کا ثمر تھا کہ حال ہی میں ہوئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں امریکہ، اومان، یوگینڈا، پاپوا نیو گنی اور نیپال جیسی ٹیمیں بھی پہلی بار عالمی سٹیج پہ نہ صرف کرکٹ کھیلتی نظر آئیں بلکہ کہیں کہیں خود سے توانا حریفوں کو حیرت زدہ بھی کرتی رہیں۔
مگر یہ پالیسی ان ٹیموں کے لیے نفع بخش نہ رہی جو محض اس لیے رینکنگ ٹیبل کے نچلے کنارے پہ ٹِکی ہوئی تھیں کہ اس سے نیچے جانے کو مزید جگہ میسر نہ تھی۔ جونھی وہ جگہ میسر آئی، زمبابوین کرکٹ گویا ڈھلان سے پھسلنے لگی۔
سو، یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ آج تگڑی ٹیموں کے خلاف زمبابوے کے میچز میں براڈکاسٹرز بھی محض اس لیے دلچسپی نہیں دکھاتے کہ اس سودے میں منافع کا امکان کم ہی رہتا ہے۔ خود سے برتر ٹیموں کے خلاف اس کے میچز عموماً مقررہ وقت سے اس قدر پہلے ختم ہونے کا رجحان رکھتے ہیں کہ خسارے کے تعین کو کوئی لائق معاشی دماغ درکار نہیں۔
پہلے میچ میں اچھے مقابلے اور متوقع جیت کی سمت گامزن ہونے کے بعد اچانک رستہ کھو جانے والی زمبابوین بیٹنگ نے جب ہدف ترتیب دینے کا فیصلہ کیا تو ان سے متوقع تھا کہ وہ سیریز کے اس فیصلہ کن معرکے میں کوئی عزم دکھائیں گے۔
ان کی ابتدا اسی عزم سے ہوئی بھی مگر پھر اچانک سفیان مقیم کی انگلیوں کے بل پہ میچ یوں گھوما کہ صرف 20 رنز کے عوض پاکستان نے 10 وکٹیں حاصل کر لی۔
لیگ سپن نام ہی جارحیت کا ہے۔ جو فطری زاویہ اس نوعیت کی سپن کو دستیاب ہوتا ہے، وہ بلے بازوں کو بھی خود بخود قدم بڑھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے میں مقابلہ پُرجوش رہتا ہے کہ جہاں بلے باز کو بڑے شاٹ کھیلنے کی موزونیت میسر ہوتی ہے، وہیں ان بڑے شاٹ کا الٹا پڑ جانا بھی امکانات کا دائرہ بڑھاتا ہے۔
لیفٹ آرم لیگ سپن مگر روایتی دائیں ہاتھ کی لیگ سپن سے بھی زیادہ مہلک ہتھیار ہے کہ اگر ورائٹی کے ساتھ ڈسپلن بھی برقرار رکھا جائے تو یہ بلے باز کے لیے بالکل ناقابلِ فہم ہو جاتی ہے۔ اور جہاں روایتی لیگ سپن بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف اپنی تاثیر میں کچھ کمی دیکھتی ہے، وہاں لیفٹ آرم سپن بائیں ہاتھ کے بلے بازوں کے خلاف بھی اتنی ہی موثر رہتی ہے جس قدر وہ دائیں ہاتھ کے بلے بازوں کو دشواری پہنچاتی ہے۔
سفیان مقیم نے یہ پانچ وکٹیں صرف سولہ گیندوں پہ محض تین رنز کے عوض حاصل کی۔
زمبابوین بلے باز پہلے ہی گوگلی سے نمٹنے میں دشواری سے دوچار تھے اور سفیان مقیم کی گوگلی کے سوا دیگر ورائٹی بھی یہاں ایسے محیر العقول زاویوں سے ٹرن لے رہی تھی کہ سکندر رضا کے ساتھیوں کو کچھ پلے پڑ کے نہ دیا۔
مرومانی اور بینیٹ نے جو مثبت پسندی اپنائی، وہ شاید زمبابوے کو کسی قابلِ قدر مجموعے تک پہنچا جاتی اور دوسری اننگز میں سست تر وکٹ پہ پرانی گیند کے خلاف پاکستانی مڈل آرڈر کا کوئی سپن ٹرائل برپا ہو پاتا۔ مگر جو تائید سفیان کو پیسرز کی ابتدائی وکٹوں سے ملی، وہ زمبابوین مڈل آرڈر کے کندھے مزید بوجھل کر گئی۔
اس سیریز میں پاکستان نے اپنی سابقہ روایات کے برعکس سپر سٹارز میدان میں نہیں اتارے اور اگلے ورلڈ کپ کی تیاری کے پیشِ نظر نئے ٹیلنٹ پہ سرمایہ کاری کی۔
یہ فیصلہ کن میچ پاکستان کی اس سرمایہ کاری کا امتحان تھا اور ٹی ٹوئنٹی میں ‘نئے پاکستان’ کی صلاحیتوں کی آزمائش تھا۔ سفیان مقیم کی 16 گیندوں نے نہ صرف سیریز پاکستان کے نام کر دی بلکہ ماڈرن ٹی ٹوئنٹی انقلاب کے پہلے پاکستانی قدم کو بھی شاندار کامیابی سے ہم کنار کر دیا۔